اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا مسلمانوں کے قائد علم و عرفاں ہونے کا؟
نقاش نائطی
+966504960485
اسلامی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو تیسری صدی ہجری بمطابق 680عیسوی میں مسلم دنیا کے مختلف خطوں میں اسلامک یونیورسٹیز کھل چکی تهیں.اگر ہم اسلامی تاریخ کی مشہور اسلامی یونیورسٹیز کا جائزہ لیں تو تین بنیادی اسلامی یونیورسٹیز ہمیں اسلامی تاریخ میں نظر آتی ہیں۔ اُن میں سب سے پہلی مراکش موروکو کی جامعہ ’’القرویین‘‘ ہے۔ دوسری تیونس کی جامعہ ’’زیتونہ‘‘ ہے۔ تیسری مصر کی’’جامعۃ الازہر‘‘ ہے
اس میں سب سے پہلی اسلامی یونیورسٹی جو مراکش کے شہر ’’فاس‘‘ میں قائم ہوئی، تیسری صدی ہجری کی جامعہ ہے۔ یہ صرف عالم اسلام ہی کی نہیں، بلکہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے۔ اس تیسری صدی یونیورسٹی کے بارے میں اُس کی تاریخ کے کتابچے میں یہ بات لکھی ہوئی کہ اُس وقت جامعۃ القرویین میں جو علوم پڑھائے جاتے تھے اُن میں اسلامی علوم، تفسیر، حدیث، فقہ اور اس کے ساتھ ساتھ طب، ریاضی، فلکیات جنہیں ہم آج عصری علوم کہتے ہیں، وہ سارے علوم پڑھائے جاتے تھے۔ ابن خلدونؒ، ابن رُشدؒ، قاضی عیاضؒ اور ایک طویل فہرست ہمارے اکابرین کی ہے جنہوں نے جامعۃ القرویین میں درس دیا۔
اُن کے پاس یہ تاریخ آج بھی محفوظ ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ابن خلدونؒ درس دیا کرتے تھے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ابن رُشدؒ درس دیا کرتے تھے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں قاضی عیاضؒ نے درس دیا ہے۔ یہاں ابن عربی مالکیؒ نے درس دیا ہے۔ تاریخ کی یہ ساری باتیں اُن کے پاس آج بھی محفوظ ہیں۔ یہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے، جامعۃ القرویین ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتی تھی جس میں تمام دینی اور عصری علوم پڑھائے جاتے تھے۔
232 هجری سال بمطابق 814 عیسوی سال، یورپ والوں کے لئے نوید علم و عرفاں لے آیا جب عرب کی اسلامی حکومتوں نے اپنے یہاں قائم اسلامک یونیورسٹیز کی فرع یعنی برانچز, یورپی ملکوں میں کھولنی شروع کردی تهیں. اٹلی کے سالیرنو میں پہلی، وە بھی اسلامک یونیورسٹی کا توسیع پزیر (ایکسٹینڈیڈ) ورشن کھلا تھا.پهر ایکے بعد دیگرے ٹالیڈو، سرویللے، اور گرینیڈو میں مسلمانوں نے یونیورسٹیز کھولی تهیں. ابتدا میں چونکہ آدھی سے زائد ترقی پذیر دنیا پر اسلامی حکومت کا تسلط تها اور بقیہ آدھی دنیا پر بھی اسلامی حکومت کے اثرات تهےاورجدت پسندی یا تعلیم یافتگی کو اسلامک حکومت سے جوڑ کر دیکھا جاتا تھا .
ان اسلامک یونیورسٹیز سے فارغ االتحصیل یعنی گریجویشن کورس مکمل کرنے والے طلبہ کو یوم تقسیم اسناد(کنووکیشن ڈے) اساتذہ و دیگر طلبہ و طلبہ کے اعزہ کے ہجوم کی موجودگی میں اسناد تعلیم (گریجویشن سرٹیفیکٹ) دیتے وقت عرب کلچر کا تفخیریت والا ڈھیلا ڈھالا ثوب یا لمبا کرتا یا چغہ اور عرب عمامہ یا پگڑی پہنائےجاتے تھے. جسے پہننا تعلیم حاصل کرچکے گریجویٹ طلبہ کے لئے،باعث فخر ہوتا تھا. یورپ کے مختلف حصوں سے ان اسلامک یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنے والے گریجویٹ اپنے اپنے ملکوں علاقوں میں پہنچنے کے بعد،خاص موقعوں پر اپنے گریجویٹ ہونے یا تعلیم یافتہ ہونے کے تشخص کے طور، اس عربی توب یا چغوں کو پہنا کرتے تھے.
اس کے بعد تقریبا آٹھ سو ہزار سال تک تقریبا آدھی دنیا، مختلف اسلامی حکومتوں اور سقوط اسپین تک، سلطنت عثمانیہ کے زیر نگین رہی تهیں. اس لئے مختلف یورپی ممالک میں مختلف یونیورسٹیز کے آزادانہ کھلنے کے باوجود، ابتدائی اسلامک یونیورسٹی کی چھاپ باقی رہی تھیں.آج سقوط اسپین پر چار ایک صد سال گزرنے کے بعد اور خلافت عثمانیہ کے مکمل زوال پزیری بعد، ایک صد گزرنے کے باوجود، پورے عالم کی یونیورسٹیز کا اپنے کنووکیشن ڈے پر تقسیم اسناد والے دن،کوڈ آف کنڈکٹ ایجوکیشن کے تحت، ڈھیلا ڈھالا کالا چغہ اور عمامہ کے بدل ہیٹ ٹائیب ڈریس کوڈ کا پہننا، 1280سال قبل کےاسلامک یونیورسٹیز کے یوم تقسیم اسناد، پہنے جانے والے ڈھیلے ڈھالے عربی ثوب اور عمامہ کی یاد دلاتے ہوئے، خلافت راشدہ سے خلافت عثمانیہ،بارہ تیرہ سو سالہ امامت عالم کی یاد دلاتا ہے اور مسلمانوں کے قائد عالم، علم و عرفان ہونے کے ثبوت کے طور فی زمانہ رائج کنووکیشن ڈےڈریس کوڈ پیش کرتے ہوئے، تعلیم علم حاضر کو ترک کرنا،زوال امت مسلمہ کا موجب قرار دیا جاسکتا ہے.
زوال اسپین کے چار صد سال بعد،نیز زوال مغلیہ سلطنت هند کے ڈھائی سو سال بعد، اور زوال خلافت عثمانیہ کے سو سال بعد، جس سرعت سے، والی خلافت عثمانیہ، مملکت ترکیہ اپنے سابقہ مقام توقیریت کی طرف پلٹ رہی ہے.اور هند کی موجودہ هندو حکومت، اپنے مکمل اکثریتی راج کے باوجود جس انارکی و بے چینی کا شکار ہے، حضور پرنور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے، هند کی طرف سے خوشبو کے آنے کا اشارہ، اس بات کا غماز ہے کہ، اپنے رشی منی منو (حضرت نوح علیہ السلام) کی اصلیت جاننے کی مشتاق هندو قوم کو، ہم مسلمین قرآن مجید کی روشنی میں، هندو قوم پر اتاری گئی صحف اولی، رگ وید، آتھر وید کی گرہوں
کو، پرت در پرت کھول کھول کر ہندو بهائیوں میں دین آسمانی کی دعوت کا کام کیاکریں گے، تو یقینا اسلامی پندرهویں صد کے اختتام تک،یعنی اکیسویں عیسوی صد کے اختتام سے پہلے، پوری ہندو قوم کے اپنے دین اصلی، دین منو کہ دین حضرت نوح علیہ السلام یاکہ دین محمدی ﷺ پر پلٹ آتے ہوئے،هند وترک اقوام کے منصب امامت عالم کی دعویداری، ایک سراب مانند خواب نہیں حقیقت میں تبدیل ہوتی نظر آتی ہے
اس کے لئے صاحبان علم وعرفان مسلمین کو چاہئیے کہ، زوال امت مسلمہ کا اصل سبب علوم دینیہ اور علوم عصر حاضر میں، یہود و نصاری کے پیدا کئے تفاوت و فرق کو ختم کر، اقراء باسم ربک الذی خلق، خلق الإنسان من علق، ( پڑھ اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے تمہیں پیدا کیا،انسان کو پیدا کیا خون کے لوتهڑے سے) والی پہلی آسمانی ہدایت پر، قرآن مجید کی روشنی میں،علم ارض و سماوات کہ بحر و سماء کہ جبل و جنگل و بیابان کہ علوم ماہ وانجم پر تدبر کر، علوم عصر حاضر کو، اپنے زیر نگین بنائیں اور پھر وعدے خداوندی کے عین مصداق، اپنے آگے سرنگوں امامت عالم پر شوق سے حکمرانی کریں .وما علینا الی البلاغ