بھنور سے کشتی کو نکلا جائے ! 94

حکومت کی اپوزیشن عوام !

حکومت کی اپوزیشن عوام !

ملک میںہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی اور معاشی بحران بڑھتا ہی جارہا ہے،اس کا بظاہر حکومت کے پاس کوئی ایسا حل نظر آرہا ہے نہ ہی حکومت اسے حل کر نے میں کوئی سنجیدگی دکھا رہی ہے، حکومت کی ساری توجہ اپوزیشن کو دبانے ،دیوارسے لگانے اور اپنے لیے کو نی نیا بیانیہ تلاش کرنے پر ہی مر کوز ہے ،

لیکن اس میں بھی کوئی خاطر خواہ کا میابی ملتی دکھائی نہیں دیے رہی ہے ، اس کے باوجود پورا زور لگایا جارہا ہے ، اپوزیشن قیادت کے خلاف بلاجواز کریک ڈائون کیا جارہا ہے اور عوام کو باور کرایا جارہا ہے کہ بانی تحریک انصاف نے اعتراف کر لیا ہے کہ میں نے اپنی گرفتاری سے قبل جی ایچ کیو کے باہر پرامن احتجاج کی کال دی تھی، لیکن ہمارے پر امن احتجاج کو ان لو گوں نے غداری بنا دیاہے۔
اس اتحادی حکومت کی قیادت کے پاس ماسوائے نوں مئی کے کچھ بھی نہیں ہے ، یہ دوسری بار اقتدار میں آئے ہیں، لیکن اپنی کا کر دگی دکھانے کے بجائے عوام کو بار بار نومئی کے پیچھے ہی لگائے جارہے ہیں ، اس کا کوئی خاص فائدہ ہورہا ہے نہ ہی عوام ان کی کسی بات پر توجہ دیے رہے ہیں ، عوام جانتے ہیں کہ نوں مئی کو کیا ہوا تھا اور اس کا فائدہ کون لوگ اُٹھا رہے ہیں، لیکن عوام چاہتے ہیں کہ نوں مئی کی تحقیقات کروا ئی جائیں ،اس کے ملزمان کو سامنے لایا جائے اور انہیںنشان عبرت بنایا جائے ،

لیکن یہ عوام کبھی نہیں چاہتے ہیں کہ نوں مئی پر سیاست کی جائے اور اس سیاست سے اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹایا جائے ، لیکن عوام میں غیر مقبول حکومت ایسا ہی کچھ کررہی ہے ، یہ تحریک انصاف پر پا بندی لگانے ا ور کبھی آرٹیکل چھ لگانے کی باتیں کر تی ہے تو کبھی اعتراف جرم کا بیانیہ بنانے کی کوشش کرتی ہے ، لیکن اپنی ان ساری کائوشوں کے باوجود کا میاب نہیں ہو پارہی ہے ، کیو نکہ اس حکومت کی کوئی ساکھ ہے نہ ہی انہیں عوام کی حمایت حاصل ہے ، یہ حکومت جن کے سہارے چل رہی ہے ،اُن کے ہی اشارے پرآج نہیں تو کل چلی بھی جائے گی ۔
اس ملک میں سیاسی ہوائیں بدلتے کون سی دیر لگتی ہے

،اس کے آثار بھی دکھائی دینے لگے ہیں ، ایک طرف حکومت اپوزیشن قیادت کے خلاف بیانیہ بنانے میں لگی ہوئی ہے تو دوسری جانب اپوزیشن مذاکرات پر آمدگی کا اظہار کرنے لگی ہے ،سیاست میں بہت کچھ سامنے اور بہت کچھ پس پردہ ہورہا ہے،لیکن جو کچھ سامنے ہورہا ہے ،اس کے بالکل برعکس پس پردہ ہورہا ہے ، جو کہ وقت آنے پر ہی سب کے سامنے آئے گا ، اس سے کسی حدتک حکومت بھی آگاہ دکھائی دیتی ہے ، اس لیے ہی ایوان اقتدار میں بے چینی دکھائی دیتی ہے ،حکومتی وزراء کی ایک کے بعد ایک پریس کانفرنس بھی دکھائی دیتی ہے ، حکومت اپنا اقتدار بچانے کیلئے ہر حربہ آزمارہی ہے اور اپناسب کچھ ہی دائو پر لگا رہی ہے

، لیکن اس کے سہارے حکومت بچے گی نہ ہی سیاست بچ پائے گی ، کیو نکہ اس اتحادی حکومت نے دوسری بار عوام مخالف فیصلوں کی سہو لت کاری کر کے عوام کی رہی سہی حمایت بھی کھو دی ہے ، عوام کی حمایت کے بغیر اقتدار مزید کتنی دیر چلایا جاسکتا ہے ، اس کے پیش نظر ہی تبدیلی کی ہوائوںکی بازگشت سنائی دیے رہی ہے۔
اس تبدیلی کی باز گشت میں حکومت کا اعتراف جرم کا بیانیہ ویسے ہی پٹ جائے گا ،جیسا کہ اس قبل بننے والا ہر بیانیہ پٹتا رہا ہے ، حکومت کو اپنے سیاسی مخالف کے خلاف ایک کے بعد ایک بیانیہ بنانے کے بجائے اپنی کار کر دگی پر توجہ دینی چاہئے ، اپنی گورنس کا بہتر بنانے کی کوشش کر نی چاہئے اور نمائشی اعلانات واقدامات کے بجائے عوام کو حقیقی رلیف دینے پر غور کر نا چاہئے ، اس کے علاوہ اتحادیوں کے پاس اپنی سیاست بچانے کا کوئی راستہ ہے نہ ہی عوام کی حمایت حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ ہے

،یہ اتحادی قیادت کی بہت بڑی بھول ہے کہ آئندہ بھی عوام کی حمایت کے بغیردوسروں کے سہارے اقتدار میں آتے رہیں گے، اس بار عوام نے اپنے فیصلے کے بر خلاف قبول کیا ہے نہ ہی آئندہ قبول کر یں گے ، اس سے بھی زیادہ مزاحمت ہو گی، اس سے بھی زیادہ احتجاج ہو گا اور عوام آزمائے حکمرانوں کو ایوان اقتدار سے اُٹھا کر باہر پھنکیں گے ۔
عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے اور عوام میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے،جبکہ حکومت کو نوں مئی پر سیاست کر نے سے ہی فرصت نہیں ہے، حکومت بدلتے حالات کا ادراک کرنے کو تیار ہے نہ ہی اپنے کرتوت تبدیل کررہی ہے، اس روش سے ہر روز شہر اقتدار میں بڑھتا سیاسی عدم استحکام کس چیز کی نشاندہی کررہاہے؟ کیا حکمران سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کی سکت نہیں رکھتے یا اس کھیل تماشے میں انھوں نے اپنے روزگار کا جواز تراش رکھا ہے؟یہ سب کچھ عوام جانتے ہیں،

عوام کی سمجھ بوجھ حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے، مگر حکمران اپنا وطیرہ تبدیل کرنے کو تیار ہیں نہ ہی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ رہے ہیں، ایسے میں اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس وقت ایک جانب حکومت ہے اور دوسری جانب اپوزیشن عوام بن چکی ہے،اس عوامی اپوزیشن کا حکومت مقابلہ کر پائے گی نہ ہی اس سے خود کو بچا پائے گی ، یہ عوامی اپوزیشن ہی حکومت کو لے ڈبوے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں