بھنور سے کشتی کو نکلا جائے ! 89

بھنور سے کشتی کو نکلا جائے !

بھنور سے کشتی کو نکلا جائے !

اتحادی حکومت اپنا پورازور اپوزیشن کو دبانے اور اپنے راستے سے ہٹانے پر لگا رہی ہے ، لیکن اس میں حکومت کامیاب ہو پارہی ہے نہ ہی اپنی ساکھ بحال کر پارہی ہے ، اُلٹا حکومت کے ہر اقدام کا فائدہ اپوزیشن ہی اُٹھا رہی ہے ، اس کے باوجود حکومت پیچھے ہٹ رہی ہے نہ ہی اپنی روش بدل رہی ہے ،بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین پر پابندی لگانے اور غداری کے مقدمات چلانے پر زور دیے رہی ہے

اور یہ سب کچھ ایسے حالات میں ہو رہا ہے ،جبکہ سیاسی بے یقینی ملک کو معاشی بدحالی کے خطرناک گڑھوں میں دھکیل چکی ہے، اس موقع پر سیاسی قیادت سے توقع کی جاجارہی تھی کہ باہمی اختلافات کو بھلا کر سب ہی فریق ملک وقوم کی خاطر مل بیٹھیں اور یقینی بنائیں کہ بحرانوں میں پھنسی کشتی کو بھنور سے نکالا جائے، مگراتحادی قیادت بحرانوں کو سمیٹنے کے بجائے ،اپنے تند وتلخ بیان بازی سے مزید بڑھاوا ہی دیئے جا رہی ہے۔
اس ملک کے حالات کو بہتر بنانے کی اپوزیشن سے زیادہ حکومت کی ذمہ داری ہے ، مگر حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں بالکل ناکام نظر آرہی ہے ، حکومت حالات سازگار بنانے کی کوشش کررہی ہے نہ ہی اپنی گورنس بہتر بنارہی ہے ، حکومت آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا اقدام کررہی ہے کہ جسے اپنے پیڑ پر خود کلہاڑی مارنے سے ہی مشابہ قرار دیا جاسکتا ہے، حکو مت کا اپوزیشن کی ایک جماعت پر پابندی لگانے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے،

اس کے سارے منفی اثرات کی زد میں حکومت ہی آرہی ہے ، اس کے باوجود سیاسی آلائو کو ٹھنڈا کرنے کا کوئی اقدام اُٹھایاجا رہا ہے نہ ہی سیاسی انتقامانہ روش کو بدلا جارہا ہے، یہ رویہ خود حکومت کے ساتھ ملک و قوم کیلئے بھی ہمہ گیر نقصانات کا حامل ہے، لیکن حکومت قومی مفاد سے زیادہ اپنا مفاد عزیز رکھ رہی ہے اور اپنا اقتدار بچانے کیلئے سب کچھ ہی دائو پر لگا ئے جا رہی ہے۔
اتحادی قیادت سیاست نہیں ،ریاست بچانے کی باتیں تو بہت کرتے ہیں ،لیکن ریاست کیلئے اپنی سیاست کی قر بانی دینے کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں ،ملک کے حالارت خراب سے خراب تر ہوتے جارہے

ہیںاور حکومت کو اپوزیشن سے دست گریباں ہو نے سے ہی فرصت نہیں مل رہی ہے ،یہ ساری ہی سیاسی جماعتیں بالخصوص حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ داخلی تنازعات سے ماورا ہو کر ملک و قوم کی بہتری کی فکر کی جائے، یہ سیاست سیاست بہت ہو چکی ہے‘ اب ان خطرات کا حل تلاش کر نا ہو گا ،جو کہ چاروں جانب پھیلے ہوئے ہیں اور ملک کے حالات کو مزید گھائل کر رہے ہیں،ملک میں ایک طرف بڑھتی مہنگائی ہے تو دوسری جانب بجلی ،گیس کے بلوں نے عوام کا جینا حرام کررکھا ہے اور نوبت ہر گھر میں لڑائی جھگڑے تک پہنچ چکی ہے،اگلے ہی روز گوجرانوالہ میں بجلی کے بلوں پر دو بھائیوں میں ہونے والے جھگڑے میںایک کی موت ہو گئی ،لیکن حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ،کیو نکہ اس حکومت میں دونوں بھائی ہی نہیں ، ساری فیملی ہی اقتدار کے مزے لے رہی ہے۔
عوام سراپہ احتجاج ہیںاور اپنی خالی جھولیاں پلا کر بد وعائیں دیے رہے ہیں،لیکن حکومت کی ترجیحات میں عوامی مسائل دور دور تک نظر ہی نہیں آرہے ہیں، یہ مہنگی بجلی کا مسئلہ آئی پی پیز کا پیدا کر دا ہے ، آئی پی پیز معاہدوں کی ناجائز شرائط اور ان کے گھپلے انکوائری رپورٹ میں ثابت بھی ہو چکے ہیں ،اس کے باوجود حکومت خاموش ہے ، کیو نکہلب کشائی پر حکومت کے اپنے پر چلنے لگتے ہیں ،

اس کے اپنے ہی چالیس حواری آئی پی پیز ہیںاور الزام تر شیاں ایک دوسرے پر کی جارہی ہیں ، یہ سب کچھ ملی بھگت سے ہوتا رہا ہے اور اس وقت بھی ہورہا ہے ،حکومت اپنے حواریوںخوش رکھنے کیلئے عوام کو ہی قر بانی کا بکرا بنائے جارہی ہے ، لیکن یہ بھول رہی ہے کہ عوام بے خبر ہیں نہ ہی ایسی ظلم و زیادتی خاموشی سے بر داشت کر یں گے ، حکومت ڈنگ ٹپائو پروگرام کے تحت آئی پی پیز سے معاہدوں کی ذمہ دار ی اپوزیشن پر ڈال کر جان چھڑا سکتی ہے نہ ہی اس پر سیاست کر کے عوام کو ور غلا سکتی ہے ،یہ سیاست عوامی مسائل کو حل کرنے کے بجائے انہیں مزید سنگین بنانے کا باعث ہی بنے گی۔
عوام کے مسائل حل کر نے میں کوئی دلچسپی دکھائی دیے رہی ہے نہ ہی عوام تر جیحات میں کہیں شامل ہورہے ہیں، عوام کو ایک کے بعد ایک ایشو کے پیچھے لگایا جارہا ہے اور اس کی توجہ کو درینہ مسائل سے ہٹایا جارہا ہے ،حکو متی وزراء کی آئے روز کی پریس کا نفرنسیں سن کر عوام کے کان پک چکے ہیں ،عوام آئے روز کی الزام تر اشوں سے تنگ آچکے ہیں ، عوام سیاسی پارٹی اور دہشت گرد تنظیم کا فرق بخوبی جانتے ہیں ،

حکومت کے کسی بیانیہ سے عوام کی سوچ بدلنے والی ہے نہ ہی عوام کی حمایت ملنے والی ہے ،اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ اس ملک کے اسٹیک ہولڈرز سر جوڑ کر بیٹھیں اور سیاسی تنگ نظری سے نکل کر جرأت مندانہ فیصلے کریںتوشاید حالات بہتر ہو جائیںاور بھنور میں پھنسی کشتی بھی باہر نکل آئے ،اس پر شاعر نے کیاخوب کہا ہے کہ
کشتی تو بھنور میں ہے لیکن ساحل کی تمنا کرتے ہیں
صحرامیں بھٹکتے پھرتے ہیں منزل کی تمنا کرتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں