بھنور سے کشتی کو نکلا جائے ! 89

احتجاج کے سواکوئی راستہ نہیں !

احتجاج کے سواکوئی راستہ نہیں !

پاکستان بڑی ہی جد جہد قر بانیاں دیے کر بنایا گیا تھا اوراس مقصد کے لیے بنا گیا تھا کہ یہاں پر عوام کو آزادانہ حق رائے دہی دیا جائے گااور عدو انصاف کا بول بالا ہوگا ،مگر چھتر سال سے قابض حکمرانوں نے عوام کو ماسوائے مہنگائی،بیروزگاری اور دہشتگردی کے کچھ بھی نہیں دیا ہے، اس کے باوجود دعوئیدار ہیں کہ خوشحالی لائیں گے ، ملک کو بحرانوں کے بھنور سے نکالیں گے ، جبکہ اس بجٹ میں ٹیکسز کی بھرمار کرکے اور بجلی گیس کے بل بڑھا کر عوام کا زندہ رہنا ہی مشکل بنادیا گیا ہے

، اس کیخلاف عوام آواز اُٹھا نا چاہتے ہیں ،احتجاج ریکارڈ کر نا چاہتے ہیں ،مگر اس حق سے بھی عوام کو محروم کیا جارہا ہے ، دہشت گردی کی آڑ میں تو کبھی ناساز گار حالات کے بہانے روکا جارہا ہے ، لیکن اس نظام کی تبدیلی اور حکمرانوں کے عوام دشمن اقدامات کیخلاف نکلنے والوں کو زیادہ دیر تک روکا نہیں جاسکے گا۔
یہ حکومت کی خام خیالی ہے کہ عوام ڈر سے باہر نہیں نکلیں گے اور دبکے بیٹھے رہیں گے ،عوام کے صبر کا پیمانہ لبر یز ہو چکا ہے ، عوام کسی ظلم و جبر سے ڈر نے والے ہیں نہ ہی کسی انتقامانہ رویئے سے پیچھے ہٹنے والے ہیں ، اس حکومت نے عوام کیلئے باہر نکلنے کے علاوہ کوئی راستہ چھوڑا ہی نہیںہے ، عوام پر یشان حال ہیں اور عوام کو ہی مزید دبایا اوریوار سے لگایا جارہاہے ، ایک طرف عوام پر آضافی ٹیکس لگائے جارہے ہیں

تو دوسری جانب مسلسل بل بڑھا ئے جارہے ہیں ، اس حکومت نے تو عام آدمی کا سانس لینا بھی مشکل کر دیا ہے ،جبکہ حکمران اشرافیہ اپنے خر اجات میں کمی لارہے ہیں نہ ہی اپنی عیاشیاں روک پارہے ہیں ، کیو نکہ اس کا سارابوجھ عوام ہی اُٹھاتے آئے ہیں اور عوام ہی اُٹھاتے رہیں گے ، حکمرانوں کا کام قرض پر قر ض لینا اورعوام کو آئی ایم ایف کی غلامی میں دینا ہی رہ گیا ہے ۔
اتحادی حکومت جب سے آئی ہے ، اس نے آئی ایم ایف سے قر ض پر قر ض لینے اور عوام پر سارا بوجھ ڈالنے کے علاوہ اب تک کوئی قابل قدر کام نہیں کیا ہے ،اس نے آئی ایم ایف سے صرف قر ض ہی نہیں لیا،

بلکہ اس کے حکم پر جو بجٹ پیش کیا ہے، اس نے عام آدمی سے لے کر بڑے سرمایہ داروں، صنعتکار اور درمیانے درجے کے تاجروں کو بھی احتجاج کرنے پر مجبور کر دیا ہے،اس کے باوجود وزیراعظم دعوئیدار ہیں کہ فی الحال ہم نے ملک کودیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے، لیکن اس پر عوام سوال کررہے ہیں کہ کیا واقعی دیوالیہ ہو جانے کی صورت میں اتنی ہی تباہی آتی ہے، جتنی کہ دیوالیہ ہونے سے بچ جانے کی صورت میں آئی ہوئی ہے،یہ دیو لیہ ہو نے اور دیوالیہ ہو نے سے بچانے کا کھیل تماشہ دیکھتے عوام تھک چکے ہیں

، عوام اب دیو الیہ ہونے کے بہکائوئے میں آنے والے ہیں نہ ہی دیو ا لیہ ہو نے سے بچ جانے کے بہلائے میں آئیں گے ، عوام جان چکے ہیں کہ اس ملک و قوم کو تباہی کے دھانے پر لانے کے ذمہ دار کون ہیں اور ان سے کیسے چھٹکارہ حاصل کر نا ہے؟عوام عرصہ دراز سے اہل سیاست کی جانب دیکھتے رہے ہیں اور اُمیدیں بھی لگاتے رہے ہیں کہ انہیں اغیار کی غلامی سے نجات دلائیں گے اور ان کی زندگی میںکوئی تبدیلی لائیں گے ،

لیکن عوام کی اُمید بر آئی نہ ہی آزادی کی نعمت مل پائی ہے ، عوام آزاد ہوتے ہوئے بھی غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ، اس مجبوری کی زنجیروں کو توڑنے کیلئے عوام کو خود ہی کچھ کر نا ہو گا ، عوام کو اپنی ھقیقی آزادی کیلئے باہر نکلنا ہو گا ،اس وقت زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی اپنی سطح پر احتجاج کر رہے ہیںاور اپنے تائیںآواز بھی اُٹھا رہے ہیں ،لیکن اس ملک کے سارے ہی طبقات کو مل کر باہر نکل کر احتجاج کرنا ہو گا، اگر اتنے حالات خراب ہو نے کے بعد بھی لوگ ایک دوسرے کی جانب ہی دیکھتے رہے

اور ایک دوسرے کے نکلنے کا انتظار کرتے رہے تو کچھ حاصل نہیں ہو گا، عوام کے ساتھ وہی کچھ ہوتا رہے گا ،جوکہ اس سے پہلے ہوتا رہا ہے ، اس حکو مت نے اپنے ہر دور اقتدار میں عوام کے لئے کچھ نہیں کیا، صرف اشرافیہ کے لئے ہی اقدامات اٹھا ئے جاتے رہے ہیں، اگر حالات جوں کے توں ہی رہے تو عوام کو مجبوراً احتجاج کا راستہ اختیار کرنا ہی پڑے گا، جماعت اسلامی نے پہل کرتے ہوئے احتجاجی دھرنے کی کال دیے دی ہے

، یہ امیر جماعت حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں ہونے والا دھرنا نظام کی تبدیلی اور حکمرانوں کے عوام دشمن اقدامات کیخلاف موثر پیش رفت ثابت ہوسکتا ہے ، اس احتجاج میں بھر پور شرکت کے سوا عوام کے پاس کوئی دوسرا راستہ موجود ہی نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں