تضحیک آمیز انداز پنکچر والے، مشہور کئے گئے، ہم بھارت کے مسلمان
نقاش نائطی
۔ +966562677707
ہم جیسے عبدل ہی ہزاروں لاکھوں دکھی بھوک سےنڈھال انسانیت کو کھلاتے پلاتےپائے جاتے ہیں۔کیونکہ ہم مسلمان خوب اچھی طرح جانتے ہیں، کہ انسانیت کی خدمت ہی سےمذہبی اقدار قائم کئے، خالق و مالک کائینات کو راضی رکھا جاسکتا ہے
انسان وہی کچھ کرتا ہے جو اسے اسکا مذہب اور اسکے والدین سکھاتے اور تربیت کرتے ہیں۔یہ ہم وہی عبدل ہیں جسے پنکچر والا کہہ کر،معتوب کیا جاتا ہے۔ دنیا ہمارے بارے میں کیا کچھ کہتی ہے کتنا ہمیں بدنام کرتی ہے؟ یا موقع موقع سے کیسے ہم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں؟ اپنے مذہبی جلوسوں میں چاہے وہ رام نومی کا جلوس ہو یا انتہائی تبریک آمیز کاوڑ یاترا، وہ ہمیں بھلے ہی ماریں، ہماری راہ چلتی گاڑیوں پر حملہ کریں،
بے قصور مسافروں کو زخمی قتل کریں،اپنے آسمانی سناتن دھرمی مذہبی آستھا اقدار ہی کے نشے میں ہماری مسجدوں پر چڑھ کر، اسے نقصان پہنچائیں، اس پر اپنے گیروے جھنڈے نصب کریں، ہمارے مذہبی آسمانی کتب قرآن مجید کی بے حرمتی کریں،اسےجلائیں، ہمارے مسلم محلوں میں گھس کر حملہ کریں، عورتوں بچوں پر ظلم جبر کے پہاڑ توڑیں۔ وہ سناتن دھرمی خود ساختہ ھندوؤں کے بھیس میں سنگھی درندے اپنی بربریت سے، اپنے اوقات دکھاتے پھریں، ہم مسلمانوں کو وہی کچھ کرنا ہے، جو ہمارے مسلم والدین نے،اپنے دین اسلام کے اونچے اخلاق و اقدار ہم میں پیوسٹ کئے ہیں۔
اور خود ہمارے آخری آسمانی مذہب اسلام کے آخری دود یا رشی منی یا پیغمبر حضرت محمد ﷺ نے، اپنی ذاتی زندگی میں، یہودی بڑھیاؤں کی للہ فاللہ فری خدمت کرتے ہوئے، انسانیت کی خدمت کیسے کی جاتی ہے؟ ہماری عملی تربیت جیسےکی ہے اس پر عمل پیرا رہتے، ہمیں اپنے اچھے اخلاق و کردارانسانیت خدمت سے، غیر مسلم بھائیوں تک اپنے دین اسلام کی عملی دعوت دینی ہے۔ بھوکوں کو وقت پر کھانا کھلانا ہے، ننگوں کوکپڑے پہنانا ہے،ضرورت مندوں کی ضروتوں کو پورا کرنا ہے۔ اور الحمد للہ ہم بھارت کے مسلمانوں نے کورونا وبا دوران، جب ھندو ویر سمراٹ مہا شکتی سالی خود کو ایشور کا اوتار غیر مرئی کہنے یا کہلوانے والے، مہان مودی جی، جنہوں نے، اچانک 14پ۔خروڑ بھارت واسیوں کو بغیر فرصت دئیے
،اپنے من کی بات،عمل آوری کرتے ہوئے، ریل و بس ہوائی سفر پر یابندی لگائے، کروڑوں پرواسی مزدوروں کو، بھارت کے ایک حصہ، ایک خطہ سے، دوسرے حصہ یا خطہ تک ہزاروں کلو میٹر کاپیدل سفر طہ کرتے، کروڑوں پرواسی مزدورں کو جب مجبور کیا تھا، وہی عبدل جیسے ہتک آمیز الفاظ سے بلائےجانے والے، بھارت کے ہم کروڑوں مسلمانوں نے، ان ایام رمضان المبارک کے پاک مہینے میں، خود بھوکے رہتے، ان بے بس و مجبور پرواسی مزدوروں کو بسکٹ کھلایا اور پانی شربت پلایا تھا،ننگے
پیر پرواسی مزدوروں کو فری چپلیں تقسیم کی تھیں۔ اور ان نام نہاد ایشور کے اوتار سنگھی لیڈروں کی تساہلی و نا اہلی کے سبب روزانہ کی بنیاد پر دم توڑتے بھارت واسیوں کو، جب ان کے اپنے رشتہ دار، اعزہ و اقرباء، کورونا سقم سے خوف کھائے، ان کا انتم سنسکار تک نہ کئے، ان کے پارتؤ شریر کو، ندیوں میں بہاتے، ان سے مکتی پاتے پائے جاتے تھے، وہیں ہم پنکچر کرنے والے دیش کے عبدلوں نے، ھندو رسم رواج مطابق ان کورونا مہلوک ہزاروں ھندو بھائی بہنوں کا سناتن ھندو دھرمی اقدار کا خیال رکھتے, انکے انتم سنسکار کئے، ان سناتن دھرمی ھندوؤں کو, اپنے اسلام دھرمی اخلاق و اقدار سے واقف کرایا تھا۔
آج بھی دیش بھر کے ہزاروں شہروں گاؤں کے مسلم ہوٹلوں میں، بغیر دھرم کی تفاوت کئے، روزانہ کی بنیاد پر،ہزاروں بھوکوں کو دو وقت کھانا کھلایا جاتا ہے، دیش بھر میں پھیلی کئی سو ہزار این جی اوز، اپنے اپنے دائرہ اختیار میں، متحد ہوئے، ایسے بیشمار روٹی بنک ، کھانا بنک اور کپڑا بنک چلائے، اس سنگھی حکومتی بدحال معشیت میں بھی لاکھوں کروڑوں بھارت واسیوں میں دو وقت کا کھانا، کپڑے لھتے کا انتظام کرتےہوئے،
ملکی معشیت کو بدحال ہونے سے بچائے ہوئے ہیں۔ ہمیں فرق نہیں پڑتا بھارت کی سناتن دھرمی ھندو اکثریت کس قدر ہم مسلمانوں کی ہتک کرتی ہے اور کس قدر ہم پر ظلم و ستم ڈھاتی ہے؟ لیکن ہمیں تو وہی کچھ کرنا ہے جو ہمارے آسمانی سناتن دھرم کےآخری ورشن،دین اسلام نے، ہمیں سکھایا ہے۔سناتن دھرمی کروڑوں ھندوؤں کی بعد الموت پورنہ جنم پر ہم بھی یقین رکھتے ہیں لیکن ان سناتن دھرمی ھندوؤں کے عقیدے سے ذرا ہٹ کر، اس دنیا یا پرتھوی کے ختم کئے جانے کے بعد، آخری حساب کتاب والے دن، ہمیں دوبارہ زندہ کیا جائیگا اور اس ساٹھ ستر سالہ ہماری زندگی میں انسانیت کے تئین ہمارے کئے،
اچھے کرموں کے انعام کے طور، ہمیں صدا کے لئے، سورگ یا جنت میں رکھا جائیگا اور انسانیت کے خلاف جرم عظیم کرنے کی پاداش میں، اس حساب کتاب والے دن، سزا کے طور،صدا کے لئے ہمیں نرگ یا جہنم میں جلنے کے لئے ڈالا جائیگا۔ اسی لئے تو،ہم پنکچر والے عبدل کہہ کر بلائے جانے والےہم مسلمان، ان سنگھی درندوں کے ہر ظلم کو برداشت کرتے ہوئے، بعد الموت اپنی آخرت سنوار ریے ہوتے ہیں۔ ہم اپنے اللہ ایشور سے یہی دعا پرارتھنا کرتے ہیں کہ وہ دنیا میں رہتے، انسانیت کی بھلائی کا اچھا کام ہمیں کرنے کی توفیق دے اور بعد الموت انسانیت کا دشمن بن دوبارہ زندہ ہونے سے آمان میں رکھے۔وما التوفیق الا باللہ