اشتعال انگیزی کی گنجائش نہیں !
پا کستان میں مذیب کے نام پر اشتعال انگیزی نہ صرف بڑھتی جارہی ہے ، بلکہ اس پر ریاست کے مصالحانہ رویئے کے باعث ریاست کے اندر ریاست بنائی جانے لگی ہے ، فتوئے جاری ہو نے لگے ہیں ، قتل کی دھمکیاں دی جانے لگی ہیں تو حکومت کو بھی ایکشن لینے کا خیال آیا ہے اور حکومتی وزراء بھی متحرک دکھائی دینے لگے ہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ مذہب کے نام پر اشتعال انگیز ی پر قانون حرکت میں آئے گا ،ریاست کے اندر ریاست بنانے اور فتوئے جاری کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جائے گی۔
گزشتہ روز سے مذہب کے نام پر اشتعال انگیزی کر نے والوں کے خلاف حکومت کے وزراء کی بیان بازیاں قابل دید ہیں ، ایک کے بعد ایک پریس کا نفر نس ہورہی ہے، اس میںشر انگیز پر و پیگنڈے کی مذمت کی جارہی ہے،قانون کی حکمرانی پر زور دیا جارہا ہے، کیو نکہ اس بار معاملہ جیف جسٹس سپریم کورٹ کا ہے،
نائب امیر جماعت ٹی ایل پی نے چیف جسٹس پا کستان قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف قتل کا فتودیا ہے اور پنجاب پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے نائب امیر تحریک لبیک پاکستان ظہیر الحسن شاہ کو گرفتاربھی کر لیا ہے، لیکن اس مقدمے کو اپنے منتقی انجام تک بھی فوری پہنچنا چاہئے،تبھی مذ ہبی اشتعال انگیزی کا سد باب ہو پائے گا۔
یہ مذہب کے نام پر اشتعال انگیزی اور فتوئے بازی کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ، اس سے قبل اکتوبر 2018ء میں بھی ایسا ہی ایک معاملہ پیش آیا تھا، اس پر اُس وقت کے وزیراعظم نے قوم سے خطاب کر کے ریاستی رٹ کے نفاذ کا اعادہ کیا تھااورمتعلقہ افراد کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی گئی تھی، جو کہ بعد ازاں اپنے رویے پر نادم و پشیمان نظر آئے،اس طرح ہی جنوری 2011ء میں پنجاب کے گورنر کا قتل ایسی ہی اشتعال انگیزی کا شاخسانہ تھا،اس میں قتل کر نے والے کو سزا دیے دی گئی، لیکن سہولت کاروں کو نہ صرف چھوڑ دیا گیا
،بلکہ اہل ریاست سر پر ستی کرتے رہے ہیں ، انہیںسیاست کر نے کے ساتھ دھرنے کر نے کی بھی اجازت دیتے رہے ہیں ،اس کا ہی نتیجہ ہے کہ آج سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف فتوئے دیئے جارہے ہیں اور قتل کی دھمکی دی جارہی ہے ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ عقیدہ ختم نبوت نہ صرف ایمان کا حصہ ہے، بلکہ اس کے بغیر ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا ہے اور اس کے خلاف کوئی بات ناقابل بر داشت ہے ، لیکن ریاست اور اداروں کے ہوتے قانون اہنے ہاتھ میں لینا بھی درست نہیں ہے ، اگر کوئی عقیدہ ختم نبوت کے بر خلاف لب کشائی کرتا ہے تو اس کے خلاف رپورٹ درج کرانی چاہئے ،اس کے خلاف مقد مہ درج کروانا چاہئے اورٖفیصلہ عدالت پر چھورنا چاہئے ،ناکہ اپنی عدالت لگا کر فیصلہ کر نا چاہئے ، فتوا جاری کر نا چاہیے ،
ریاست میں ریاست بنا نے کی اجازت ہو نی چاہئے نہ ہی کوئی فتویٰ جاری کر نے کی ہر ایک کو اجازت ہو نی چاہئے اور ایسے لوگوں کے ساتھ ریاست کا اپنے مفاد میں مصالحانہ رویہ بھی نہیں ہو نا چاہئے، ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک سیاسی و معاشی کے ساتھ سکیورٹی چیلنجز سے نبردآزما ہے، مذہب کے نام پر لوگوں کو اُکسانے کی کوشش کر نے والوں کی حوصلہ افزائی کا فائدہ صرف ریاست کے دشمنوں کو ہی ہوسکتا ہے۔
یہٓ امر خوش آئند ہے کہ اس ضمن میں حکومت اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہے اوراس پر اپنے سیاسی مفاد ات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی سہی، ہر ممکن کارروائی کررہی ہے،اس جیسے حساس نوعیت کے مقدمات میں علما کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرناچاہیے اور کسی عدالتی فیصلے پر ردعمل میں عجلت سے گریز اور فیصلے کا علمی وقانونی پہلو ئوں سے جائزہ لے لینا چاہیے، اگرکوئی اعتراض نظر آئے تو مناسب فورم پر فیصلے کے خلاف اپیل کرنی چاہئے،یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ ایک مجمع لگا کر کوئی فیصلہ کر نے اور فتوے دینے بیٹھ جائے،اس کی کسی مہذب معاشرے اور ریاست میں اجازت دی جاسکتی ہے نہ ہی اسے بر داشت کیا جاسکتا ہے ،ریاست کو بھی اب سنجیدگی سے سوچنا ہو گا
کہ اگر اس مذہبی اشتعال انگیزی کا سد باب کر ناہے تو کسی اگر، مگر، چونکہ ،چنانچہ اور اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کے خلاف کھڑے ہونا ہوگا اور ریاست کو طے کرنا ہوگا کہ یہ کوئی دفاعی اثاثہ ہیں نہ ہی کوئی دفاعی فورس ہیںکہ ان کی اپنی نر سریوں میں افزائش کی جاتی ر ہے ،یہ ریاست کیلئے ایک بوجھ اور روگ بنتے جارہے ہیں ، ان سے جتنی جلد چھٹکارہ حاصل کر لیا جائے گا ،اتنا ہی جلد مذہبی اشتعال انگیزی کے روگ سے نجات مل پائے گی اور ملک میں امن وامان قائم ہو پائے گا۔