مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہیں !
ملک بد امنی‘ احتجاج اور دھرنوں سے شدید تنائو کا شکار ہے‘ اس صورتحال میںسیاسی بحران ختم کرنے اور درست فیصلوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے،بانی پی ٹی آئی نے بھی مذاکرات کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مقتدرہ اپنا نمائندہ مقرر کرے ،ہم مذاکرات کر نے کیلئے تیار ہیں ،جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی دوبارہ یو ٹرن لے رہے ہیں اور مذاکرات کیلئے منتیں ترلے کررہے ہیں ، یہ کبھی گریباں پکڑتے ہیں تو کبھی پائو ں پر گرتے ہیں ،اس لیے بات چیت کا کوئی امکان نظرنہیں آرہا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو اتحادی حکومت کی کوشش رہی ہے کہ مقتدرہ اور بانی پی ٹی آئی میں مذاکرات نہ ہو پائیں ،کو نکہ اگر ان دونوں میں مذاکرات ہوتے ہیں تو دونوں ہی ایک پیج پر آجائیں گے ،جوکہ اتحادی حکومت کے مفاد میں نہیں ہے ، اس بارے پی ٹی آئی قیادت بھی بار ہا اظہارکرتے رہے ہیں کہ مقتدرہ اور پی ٹی آئی میں اختلاف بڑھانے میں حکومت کا نمایاں کر دار رہا ہے اور اب بھی کوشش جاری ہے کہ دونوں میں مکالمہ نہ ہو پائے ، اگر مکالمہ ہو گیا تو حکومت کا جانا ٹہرجائے گا ، اس لیے ہی بانی پی ٹی آئی کی مذاکرات کیلئے آمدگی پر حکومتی وزراء واویلا کررہے ہیں ، نوں مئی واقعات یاد دلارہے ہیں، لیکن بھول رہے ہیں کہ اس کا سارا فائدہ کس نے اُٹھایا ہے اور کون مسلسل اُٹھائے جارہا ہے؟
اس نومئی کی مہر بانی سے ہی اتحادی ہار کر بھی اقتدار میں آئے ہیں اور اس پر ہی سیاست کر کے اقتدار میں بیٹھے ہوئے ہیں ، اس آزمائی حکمران قیادت کے پاس ملک و عوام کو مشکلات سے نکلالنے کا کائی پلان ہے نہ ہی اب تک کوئی کار کر دگی دکھا پارہے ہیں ، ملک میںمہنگائی‘ بدامنی اور معاشی مسائل خوفناک صورت اختیار کر تے جارہے ہیںاور حکومتی وزراء کو اپوزیشن سے دست گریباں ہونے سے ہی فرصت ہی نہیں مل رہی ہے
، حکومت کبھی اپوزیشن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنارہی ہے تو کبھی ان کے خلاف آئینی ترامیم لائے جارہی ہے ،تاکہ انہیں پارلیمان میں اکسریت حاصل کر نے سے روکا جاسکے ، حکومت کی تر جیحات میں دور تک کہیں عوام ہیں نہ ہی ملک میں استحکام لانے کی کہیں سوچ دکھائی دیتی ہے ، اس لیے ہی عوام میں گزرتے وقت کے ساتھ بے یقینی اور مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔اس بے یقینی کا ہی نتیجہ ہے کہ اس حکومت کے کسی بیانیہ پر عوام اعتبار کررہے ہیں نہ ہی اس کی حمایت کر نے کیلئے تیار ہیں ، عوام آزمائے حکمرانوں سے تنگ آچکے ہیں
اور ان سے نجات چاہتے ہیں ،اس کا اظہارسڑکوں اور چوراہوں پر کیا جارہا ہے ، دھر نوں میںشامل ہو کر بتایا جارہا ہے کہ حکومت کے عوام مخالف فیصلے مانے جائیں گے نہ ہی حکمران اشرافیہ کے بوجھ اُٹھائے جائیں گے ، اس کو حکمران جتنا جلد سمجھ جائیں ، ان کیلئے بہتر ہو گا ، ورنہ بد لتے حالات بتارہے ہیں کہ عوام کا بڑھتا احتجاج حکومت کو چلنے نہیں دیے گا ،حکومت دوسروں کے سہارے زیادہ دیر چل سکتی ہے نہ ہی بڑھتے مسائل کی شدت سے نظر یں چرائے رکھ سکتی ہے ،حکومت کے پاس مسائل کی شدت سے غافل ہونے کی گنجائش ہے نہ ہی سیاسی اختلافات بڑھانے کوئی گنجائش ہے ، حکومت کی جانب سے بات چیت میں رخنا ڈالنے کامطلب ہو گا کہ ملک کو مسائل کی دلدل میں پھنسائے رکھنا چاہتی ہے۔
اس وقت ملک کسی ذاتی مفادات کا متحمل ہو سکتا ہے نہ ہی کسی فرد واحد کی ضد وانا کی بھینٹ چڑھ سکتا ہے ، یہ ملک کے سیاسی لیڈروں کا بھی امتحان ہے کہ وہ اوسط درجے سے بڑھ کر کوئی فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا محدود اپنے مفادات سے آگے بڑھنے سے قاصر ہیں، بانی پی ٹی آئی نے مشروط بات چیت کا عندیہ دیا ہے ‘ یہ بہتر ہوتا کہ بات چیت کیلئے ان کی آمادگی غیر مشروط ہوتی،مگر ظاہر ہے
کہ سبھی شرائط تعمیل کے نقطہ نظر سے پیش نہیں کی جاتی ہیں‘اس لیے بانی پی ٹی آئی کی پیشکش کا مثبت جواب دیا جانا چاہیے،ناکہ حرف تنقید بنانا چاہئے نہ ہی اس پر سیاست چمکانی چاہئے، بلکہ مفا ہمت کی طرف چاہئے اور مذاکراتی عمل کو آگے بڑھنا چاہئے،کیو نکہ مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہیں، آج نہیں تو کل اہل سیاست اور اہل ریاست کومزاکرات کرنا ہی پڑیں گے، یہ مذاکرات ہی در پیش بحرانوں سے نجات دلا سکتا ہے اور ملک کو استحکام کی راہ پر آگے لے جاسکتے ہیں ۔؎