69

فنانس ایکٹ 2024؁ء کی ترمیم اور عوام کے مسائل بمقابلہ حکومتی ترجیحات

فنانس ایکٹ 2024؁ء کی ترمیم اور عوام کے مسائل بمقابلہ حکومتی ترجیحات

 تحریر ملک غلام مزمل تھہیم ایڈووکیٹ ہائیکورٹ اینڈ ڈسٹرکٹ کورٹس لیہ 
انصاف کرنے والے اداروں میں عدلیہ کا نام ہمیشہ سرفہرست رہا ہے ۔ہم عدالتی آفیسران ججز انصاف کو عدل سے منسوب کرکے انصاف کی ذمہ داری قانون کے اداروں اور حکومت پر ڈال دیتے ہیں یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ اداروں کی یہی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو انصاف مہیا کریں اگر پولیس بے گناہ لوگوں کو چالان نہ کرے گی تو پہلا انصاف پولیس نے ہی مہیا کردیا اور اگر پولیس بے گناہ لوگوں کو چالان کرکے انصاف کیلئے عدالت بھیج دیتی ہے تو یہ ذمہ داری انصاف کا قتل کرنے کے مترادف ہے
ایسے پولیس اہلکاران اپنے محکمہ کیلئے کوئی نیک نامی کا باعث نہیں بنتے ۔اسی طریقہ سے حکومت اگر عوام کو انصاف دینے میں ناکام ہوجاتی ہے تو اس میں عدالتوں کا کیا قصور ہے عوام ہمیشہ عدالتوں کی طرف پر امید نظروں سے دیکھتے ہیں ان کی حکومت سے لڑای ہی رہتی ہے جس میں مہنگائی ،بے روز گاری ،ٹیکس ،سہولیات کا فقدان مختصر سی شکایات ہیں عوامی خواہشات کا سمندر حکومتی نمائندگان کبھی پورا نہ کر پائے ہیں اور عوامی سوالات پر ہمیشہ اپنا سامنہ لیکر بیٹھ جاتے ہیں ۔
عدالت میں وہ لوگ جاتے ہیں جو سیاستدانوں کے پاس نہیں جاتے جنکو پولیس اور حکومتی ادارے انصاف نہیں دے پاتے وہ انصاف کی خاطر عدالت کا دروازہ بجاتے ہیں اب انصاف سستا اور دہلیز پر ملتامشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا جارہا ہے جہاں عوام کو وکلاء کی بھاری بھر کم فیسوں کا سامنا تھا وہاں اب حکومت کو ہردرخواست پر ٹیکس دینا لازم ہے آپ غریب ہیں یاامیرہیںآپکے پاس کیس لڑنے کیلئے مفت وکیل کی سہولت موجود ہے یا آپ نے فیس ادا کررکھی ہے آپ عدالت میں وکالت نامہ دینا چاہتے ہیں
یاعدالت میں سٹے کی عرضی لیکر آئے ہیں آپ کو ٹیکس پہلے دینا ہوگا چاہے آپ کا کیس ابتدائی سطح پرہی قابل سماعت  نہ ہے قراردیکر خارج کردے یہ ٹیکس ٹکٹوں کی صورت میں دیا جانا ضروری ہے جی ہاں ٹیکس کی شکل ٹکٹ ہوگی یہ اصول انگریز سے سیکھا گیا ہے ڈاک ٹکٹ اس کی اہم مثال ہے بلاشبہ کورٹ فیس ایکٹ میں کورٹ فیس کی ادائیگی کا طریقہ کار موجود ہے لیکن فنانس ایکٹ 2024؁ء میں جو طریقہ کار عدالتی کاروائی دعویٰ ،درخواست ،وکالت نامہ ،بیان حلفی ،فوجداری استغاثہ ،درخواست بے دخلی ،درخواست کرایہ داری ،اقرار نامہ ،اقرارنامہ بیع ،طلاق نامہ ،نقل فارم وغیرہ پر ٹیکس کے حصول بصورت ٹکٹ بیان کیا گیا ہے یہ سب عام عوام پر بے جابوجھ ہے
اور انصاف کا ناصرف قتل ہے بلکہ عوام کیلئے انصاف کا دروازہ بند کردیا گیا  ہے اب عدالت میں مقدمات وہی کریں گے جو صاحب حیثیت ہوگاکیونکہ جہاں پہلے دو روپے کا ٹکٹ لگتا تھا وہاں اب 500/-روپے کا ٹکٹ لگے گا کا جہاں کوٹ کا تصور نہ تھا وہاں اب 1000/-روپے سے لیکر 3,000/-روپے اور وکالت نامہ پر 100/-روپے ،نقل فارم پر 100/-سے لیکر 500/-روپے اور طلاق نامہ پر 1000/-روپے کا ٹکٹ لازم ہے یعنی جس شخص کے پاس ٹکٹ کے پیسے نہ ہیں وہ طلاق نامہ لکھواہی نہیں سکتا
۔کیایہ طلاق کو روکنے کا حکومتی حربہ ہے ؟طلاق ایک شرعی حق ہے اور شرعی حق پر ٹیکس کا انعقاد ناصرف غیر قانونی ہے بلکہ غیر شرعی ہے فنانس ایکٹ 2024؁ء کی ترمیم کے مطابق طلاق نامہ پر 1000/-روپے کا ٹکٹ /اسٹام لاگوہوگا ۔اسطرح یہ ترمیم کسی طور پر قابل جواز اور درست نہ ہے عوام کیلئے آسان اور قابل عمل پالیسی بنانا حکومت کا کام ہے لیکن یوں لگتاہے کہ کسی ایک مسئلہ کو حل کرنے کیلئے دوسرامسئلہ پیدا کیا جاتا ہے اور دوسرے مسئلے کو حل کرنے کیلئے تیسرا مسئلہ پیدا کیا جاتا ہے
اسطرح مسائل کی تعداد میں تو اضافہ ہورہا ہے لیکن حل ان کا ناپید ہوتا جارہا ہے یوںملک پاکستان کو ہر قدم ترقی کی بجائے پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے ۔حکومت کو آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کیلئے بہت سارے ٹیکس لگانا پڑرہے ہیں یہ کوئی معقول جواز نہیں ہے بلکہ حکومت کو چاہیے کہ اپنے اخراجات میں کمی لاکر عوام کو سہولت مہیا کرے لیکن بڑے دفاع کے بڑے لوگ حکومتی مشیر ہیں جو اولمپک میں 27حکومت نمائندگی کیساتھ گئے ہیں جبکہ کھلاڑیوں کی تعداد محض 7ہے اس طرح حکومتی خزانہ پر بوجھ کم کیا جارہا ہے
اور اولمپک کی نمائندگی کسی کھلاڑی کو دینے کی بجائے سیاستدان کو دیکر دنیا کو پیغام دیا جارہا ہے کہ سیاست کھیل میں گھس چکی ہے اسکا بوجھ عدم ہی اٹھا لئے ۔ابھی تک کسی سیاستدان نے اپنی ملک پاکستان کیلئے وقف نہ کی ہے نہ ہی پارلیمان میں بیٹھنے والے افراد نے اپنی تنخواہوں میں کمی کی ہے بلکہ دو گنااور تین گنا  اضافہ ہورہا ہے اس سے ان کیلئے خوشخبری کی نوید ہے ان کی عوام ووٹرز کیلئے دکھ کی گھڑی ہے کیونکہ یہ تنخواہ او ر اضافے عوام کی ہڈیوں سے ہی نکالے جائیں گے
https://www.youtube.com/watch?v=_jJZSzOwkv0
۔کوئی مستقل پالیسی تشکیل نہ دی جارہی ہے الٹا عوام کو قرضوں کا عادی بنانے کیلئے موٹرسائیکل بائیک سے لیکر سولر اور گھر تک قرضوں کی اور سود کی مدمیں دیا جارہا ہے جس سے عوام کو محنت کا عادی بنانے کی بجائے ہر وقت سود سود اور قرض کی ادائیگی کی فکر کھائے گی یہ عوام ہر دور کے حکومتی نمائندوں کے رحکم وکرم پر ہی رہے گی حکومت کی پالیسی تبدیل کرنے سے امید کی کرن روشن ہوگی اس کیلئے نئی اور اچھی سوچ کو مثبت طرف لے جانا ہوگا فنانس ایکٹ سمیت دیگر تمام امور جو عوام پر اضافی بوجھ کی صورت میں ختم کرنا ہوگا ۔عوام کو قرض کی پالیسی ختم کرکے ہنر مند افراد کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی ایک سال کیلئے کسی قرض کی ضرورت نہیں ایک ٹیم کی ضرورت ہے
جو ہنر مند افراد پیدا کرسکے اس سے معاشرہ ترقی کرے گا اور زندگی میں ایک نئی روح جنم لے گی ایک امید پیدا ہوگی جو روشنی کی طرف سفر کرے گی جس میں عوام پر اضافی ٹیکس کا بوجھ نہ ہوگا بلکہ عوام حکومت کی ریڑھ کی ہڈی بن کر حکومت کو مضبوط کرے گی لیکن یہ خواب کب تک تعمیر ہوگا اور اسکا انحصار حکومتی پالیسی پر ہی ہے عوام حکومت کو دیکھ رہی ہے کہ کب سوچ بدلے گی اور بہتری آئی گی ۔ 
https://www.youtube.com/watch?v=_jJZSzOwkv0

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں