البے، الف ب ، قدرتی یا مشروم
۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707
البے، الف ب، قدرتی، یا مشروم، نام کچھ بھی ہو لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ یہ قدرتی خود رؤ مشروم دیکھتے ہی بهٹکلی لوگوں کے منھ میں پانی آئے بنا نہیں رہتا ہے.
یہ قدرتی مشروم عموما بارش کے مختلف ناموں والے مراحل میں سے ایک مشروم بارش والے وقفہ دوران،سانپ کی خطرناک قسم ناگ دیوتا کے مسکن کے آس پاس قدرتی طور پیدا ہوتا ہے. کئی اقسام کے مشروم دنیا کے مختلف حصوں میں قدرتی طور پیدا ہوتے ہیں۔ لؤلؤ جیسی بڑی سوپر یا ہائپر مارکیٹ میں، عالم کے مختلف ملکوں حصوں میں خودرؤ آگے یا زراعت کے تحت اگائے گئےمشروم بیچنے کے لئے رکھے جاتے ہیں۔ البتہ زمانہ کی جدت پسندی ،اب جدت پسند ذراعتی فارم میں بڑی مقدار مصنوعی طور مشروم اگائے جانے لگے ہیں۔
بارش کے مخصوص دنوں میں بھٹکل و آس پاس دیہاتوں میں، قدرتی طور اگ آنے والے مشروم لال مٹی میں پیدا ہوتے ہیں، بھٹکل کے قریب منکی گنونتی کے خودرؤ آگ آنے والےمشروم سائز میں بڑے موٹے ہونے کی وجہ سے علاقے میں کافی مشہور اور مہنگے بکتے ہیں، سرسی ہبلی،کیرالہ اندهرا، کے مختلف علاقوں کے قدرتی مشروم کالی مٹی میں پیدا،انتہائی صاف ستھرے دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں. لیکن وہ کالی مٹی میں پیدا ہوئے خودرؤ مشروم دیکھنے میں دل لبھاؤنے، آور صاف ستھرے رہنے کے باوجود، بھٹکل و آس پاس پاس دیہاتوں میں خود رؤ اگنے والے، لال چکنی مٹی والے مشروم، کھانے میں لذت کے اعتبار سے لاثانی ہوتے ہیں ویسے تو یہ مشروم ترکاری ذات کے ہیں
لیکن اپنی لذت کے اعتبار سے ماساہاری یا نون وجیٹیرین جیسے لگتے ہیں۔ بھٹکل کے مشروم اتنے لذیذ ہوتے ہیں کہ مارکیٹ میں خودرؤ مشروم آتے ہی پتہ ہی نہیں کیسے خریداروں کا جم غفیر جمع ہو جاتا ہے؟ اس قدرتی مشروم کی کوئی قیمت متعین نہیں ہوتی ہے۔تعداد میں کم آئیں تو قیمت اونچی ہوجاتی ہے. اور اگر یہی قدرتی مشروم ہر دیہات سے زیادہ مقدار مارکیٹ پہنچ جاتے ہیں تو قیمت معتدل رپتی ہے۔ بیس تیس سال قبل برسات کے موسم میں، جب یہی خودرؤ مشروم زیادہ آنے پر، مشروم کی قیمت گر جایا کرتی تھیں تب غرباء بھی اسے خرید آپنی تسکین کرلیا کرتے تھے۔ لیکن فی زمانہ تصور سے بھی زیادہ یہ مشروم مارکیٹ میں آتے پس منظر میں بھی، کیسے لمحوں گھنٹوں میں غائب ہوجاتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔ مقامی طنز و مزاح کے افسانوی کردار گڑگڑی میران نےاس سمت تحقیق کرنا چاہی اور مارکیٹ کے آس پاس ہی ڈیرہ ڈالے ٹہلنے لگے۔ پہلے ہر کوئی اپنے گھر کے افراد تعداد کے حساب سے دو تین سو یا پانچ سو تک مشروم خرید لیا کرتا تھا
، لیکن آج کے پیٹرو ڈالر من و سلوی سے سرشار نوجوان گاڑیوں میں آتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد خرید لیجاتے ہیں۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ، زمانے کی جدت پسندی اور خلیج کے باد بہاراں پیٹرو ڈالر فراوانی نے، ہر متوسط و امراء کے گھروں میں، ڈیف فریزر کا،شان آسودگی درشاتا لازم ملزوم امر بنا دیا ہے، کتنی بھی زیادہ مقدار میں خودرؤمشروم آجائیں،ہر کوئی اسے خرید ادھا پکاکر، اسے فریزر میں منجمد رکھے
، سال بھر قدرتی مشروم کھانے کے اپنے شوق کو، زندہ و تابندہ رکھنے کے چکر میں، تصور سے بھی زیادہ خریدتا پایا جاتا ہے۔ اسی لئے تو کتنی بھی مقدار یہ قدرتی مشروم مارکیٹ میں آجائیں، غریبوں کے ذوق و شوق و انکے لب و زبان و حلق کو تسکین دیتے یہ مشروم صاحب حیثیت امراء کی فریزر میں مقید ہوکر رہ جاتے ہیں۔گویا غرباء و مساکین یہ خودرؤ مشروم کھانے کا سوچیں یہ اب انکے لئے ممکن نہ رہا۔
قدرتی مشروم کی چڑھتی یا چڑھائی جاتی قیمت پر کچھ سال قبل کا ایک ذاتی تجربہ۔اچھے بڑے سائز کے مشروم کا انبار مارکیٹ سر راہ دیکھ ہم نے اسکوٹر کھڑا کئے بیچنے والے جانکار شخص سے قیمت پوچھی۔ پانچ سو روپیہ سو عدد مشروم آواز آئی۔ الحمد للہ ہم متوسط گھرانے کے خلیجی تاجر ہونے کے باوجود اس قیمت پر خریدیں کہ نہ خریدیں سوچ ہی رہے تھے کہ ایک بزرگ شخصیت نے وہاں پہنچ کر قیمت پوچھی تو اس نے جوابا” کہا 600 روپیہ سو عدد، بزرگ شخص نے بھاؤ تاؤ کرتے پانچ سو روپیہ فی سو عدد مشروم پوچھا۔ اسنے ابھی ہاں یا ناں جواب بھی نا دیا تھا کہ بزرگ شخض نے کہا 550 کے حساب سے دینا ہے تو پورا گنتی کرکے تھیلی میں بھردو۔ ہم خلیج کے بازاروں میں تین چار دوکان والے تاجر، قبل اسکے کہے 500 روپیہ فی سو عدد مشروم کے حساب سے لیں
یا نہ لیں سوچ ہی رہے تھے،کہ کہئں مہنگے تو نہیں دے رہا ہے، مگر وہ بزرگ شخصیت بغیر وقت ضائع کئے 550 کے حساب سے پورا لاٹ مشروم گن کر لے گئے۔ ہم اس بزرگ کو جانتے تھے۔ متوسط سے بھی کچھ کم والے تھے انکے بچے خلیج میں نوکری کرتے تھے۔ انکی ہندستانی کمآئی میں بھاؤتاؤ کرتے انکی زندگی گزری تھی، لیکن انکی اولاد کے ارسال کردہ پیٹرو ڈالر، کس محنت سے کمائے گئے تھے، حلال کمائی کے تھے کہ حرام، یہ دیکھ کے وہ کماتے ہونگے، اس کی پرواہ کئے بنا،وہ منھ مانگی قیمت پر،من چاہی چیزیں خرید، اپنے وقت کی خریداری بیچارگی کا شایدازالہ کررہے تھے۔ ثانیاً گنتی میں ہونے والی کمی و بیشی پر بھی انکی نظر نہ تھی، سبب صاف تھا زندگی بهر دیکھ دیکھ کر، خوب بھاؤ تاؤ کئے
، خرچ کرتے آئے وہ بزرگ شخص، اب انکی اولاد کے بے تحاشا ارسال رقوم سے، اپنی حسرتوں کا گلا پھر دبائے، جمع کرنے سے شاید بچنا چاہتے تھے۔ زندگی بهر کی انکی محنت کی کمائی دیکھ دیکھ خرچ کرتے شاید وہ تھک چکے تھے، اس لئے اولاد کی آسان کمآئی وہ آسانی سے خرچ کئے، اپنے وقت کی کمیوں کا ازالہ کرتے، اپنے قلب و ذہن کو تسکین دینا چاہ رہے تھے۔کسی نے سچ کہا ہے جتنی محنت پیسہ کمانے وقت لگتی ہے اس کا احساس صرف محنت سے کمانے والے کو ہی ہوتا ہے
شہر بھٹکل ہو یا بیرون بھٹکل یا بیرون ھند،خلیج کے صاحب حیثیت گھرانوں والے ڈیب فریزر میں، آدھ پکی مشروم پیکٹوں کی صورت، ایک برساتی موسم سے دوسرے برساتی موسم تک، منجمد محفوظ رہتے، غرباء ومساکین کی غربت کا مذاق اڑاتے،پورا سال مالداروں کے دستر خوان کی زینت بننے تیار رہتے ہیں۔ برساتی موسم میں قدرت کی طرف سے عطا کردہ یہ خود رؤ مشروم۔ یہ اس لئے کہ بھٹکلی خود رؤ مشروم انتہائی لذیذ ہوتے ہیں۔
یہ مشروم ویسے تو مختلف اقسام مختلف پکوان سے بنائے جاتے ہیں۔ادرک لہسن پیسٹ ڈالے مرچ مصالحہ دار مشروم، یا بھٹکل والوں کی مشہور بیف فش جھینگا بریانی طرز،تیار کی جانے والی مشروم دم بریانی، لیکن پھتر کی سیل پر خاص انداز پسی ہوئی، جنوب ھند ہبلی دھاڑواڑ والی لمبی لال مرچ پیسٹ جسے مہاراشٹر گوا والے، پنجنٹ مصالحہ بھی کہتے ہیں،اس لال مرچ مصالحہ کو، پیاز کے ساتھ پکائے، قدرتی مشروم مصالحہ کو، بھونی ہوئی باسمتی یا مقامی چھوٹے سائز کے خوشبودار گرسل چاول تاری، تہاری یا پلاؤ کے ساتھ کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ فی زمانہ ہر موسم میں امراء گھرانوں کی بڑی مگر خاص دعوتوں کی ڈنر ٹیبل کی شان ہوتے ہیں مختلف انداز پکائے یہ برساتی قدرتی خودرؤ مشروم۔وما علینا الا البلاغ