کل ماضی کا محبت بھرا رکشا بندھن اور آج کے سنگھی منافرتی ہندو تہوار 82

جنگ آزادی ہند کی جد جہد کرنے والے پہلے حکمراں سلطان میسور.

جنگ آزادی ہند کی جد جہد کرنے والے پہلے حکمراں سلطان میسور.

نقاش نائطی
نائب ایڈیٹر اسٹار نیوز ٹیلوزن دہلی
+966562677707

سترویں صدی کے آخری دو تیں دہوں نے، اکهنڈ بھارت پر، کچھ ایسے اثرات چھوڑے ہیں کہ جسکا خمیازہ موجودہ نسل کے ہم ہندستانی بھگتنے پر مجبور ہیں ایک طرف تجارت کے لئے آئے انگریز حکمرانوں کے ایجنٹوں نے ہند کے مالی وسائل کے ذخائر کو لوٹ کر، اپنا ملک آباد کرنے کے لئے ایسے تانے بانے بنے ، کہ سونے کی چڑیا ہند کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر ، اس پر حکمرانی کرنے کی بنیاد، شمالی ہند میں ڈالی گئی،

تو انہیں دنوں جنوبی ہند میں،شیر میسور حضرت ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے ارادوں کو قبل از وقت بھانپ کر، ان کو شکست فاش دیکر ہند سے باہر پھینکنے کا عزم کیا تها. اور ایک دو معرکوں میں ان کے دانت کھٹے بهی کئے تهے. لیکن اس وقت چھوٹے چھوٹے مختلف ریاستوں کے راجے مہاراجوں اور نوابوں نے مل جل کر، انگریزوں کے خلاف متحدہ مقابلہ کرنے کے بجائے، اپنی اپنی ریاستوں کی توسیع کی خاطر، ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما طاقتوں کے روبرو، اپنے ملکی, آپسی دشمنوں کے خاتمہ کے لئے، انگریزوں کی خدمات لیناشروع کیا تها.

اور یوں حضرت ٹیپو سلطان شہید کے خلاف شیواجی مہاراج کی مرہٹہ افواج اور حیدر آباد نواب کی مسلم افواج نے متحدہ انگریز افواج کے ساتھ مل کر، حضرت ٹیپو سلطان کے خلاف یلغار کردی تهی. چونکہ شیواجی مہاراج کی مریٹہ افواج نے حضرت ٹیپو کے خلاف انگریز افواج کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کر اتحادی افواج کا حصہ بنے تھے اور بعد آزادی ھند ھندو اکثریت کی طرف سے شیواجی مہاراج کو آزادی ھند کا فرضی ھیرو ثابت کرنا تھا، اسی لئے انگرئزوں کی حضرت ٹیپو سلطان کے ساتھ جنگ کو تاریخ ہی سے کدھیڑنے کی کوشش کی جاتےہوئے، حضرت ٹیپو سلطان علیہ الرحمہ پر ھندوؤں پر حملے کے جھوٹے الزامات گھڑتے ہوئے ،انکی اعلی شخصیت کو داغ دار کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی رہی
اس متحدہ افواج کی طاقت سے مرعوب، حضرت ٹیپو سلطان کے پاؤں ڈگمگاتے نہ دیکهے تو،شیواجی مہاراج کے ذاتی تعلقات،ٹیپو سلطان کے اس وقت کے وزیر خزانہ پورنیہ اور نواب حیدرآباد کے ذاتی تعلقات، ٹیپو کےخاص صلاح کار میر صادق جو تھے انکا استعمال کر،انہیں ٹیپو سے غداری پر آمادہ کئے، حضرت ٹیپو کو مات دینے میں کامیابی حاصل کرلی گئی تھی.میر صادق اور پورنیہ کی غداری کی بھنک ملنے پر براہ راست انکا نام نہ لئے،اپنی افواج کو مخاطب کرتے ہوئے، انکی شہادت سے ایک دن پہلےکی گئی

حضرت ٹیپو سلطان شہید علیہ الرحمہ کی تقریر،تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔وہ برسات کا موسم تھا۔ حضرت ٹیپو سلطان کا دارالخلافہ سری رنگا پٹنم قلعہ کاویری ندی کے کنارے تعمیر کیا ہوا ہے۔حضرت ٹیپو سلطان نے آسمان پر گھرے بادلوں کو دیکھ کہا تھا۔ میرے بہادر سپاہیو، آسمان پر گھرے بادل شاہد ہیں کہ، کل یا پرسوں موسلا دھار بارش ہونے والی ہے۔ ایک دن کی بارش کاویری ندی بھرتے ہوئے،ندی کے پار خیمہ زن، انگریز نواب و مراٹھا مشترکہ افواج وہیں پھنس کر شکشت فاش کھاتے ہوئے، بھاگنے مجبور ہوجائیگی۔

اس لئے جس جوانمردی کے ساتھ آپ تک تم لوگ ہمیشہ لڑتے آئے ہو مزید ایک دو دن کی آپ کی جفاکشی، ہمیں فتح اور دشمن افواج کو شکشت فاش دلاسکتی ہے۔حضرت ٹیپو کی زبان سے یہ سن کر غدار میر صادق اور پورنیہ نے بارش آنے سے پہلے ہی ندی پار خیمہ زن مشترکہ دشمن کو،قلعہ پر یلغار کا اشارہ دے دیا اور قلعہ کے پھاٹک کو دشمن افواج کے لئے کھول دیا تھا۔اور یوں انیسویں صدی کے شروع ہونے سے پہلے ہی، انگریزوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار انگریز، مرہٹہ اور مسلم افواج نے، حضرت ٹیپو سلطان کو شہید کر, اکهنڈ بھارت پر انگریزوں کی حکومت کو حیات دوام بخش دی تھی.
ٹیپو سلطان کی شہادت کی تصدیق ہونے کے بعد اس وقت کے متحدہ افواج کے انگریز سپہ سالار کا یہ جملہ “ٹیپو کے خاتمہ کے بعد اب ہندستان ہمارا ہوگیا ” کیا بات درشاتا ہے؟حضرت ٹیپو سلطان علیہ الرحمۃ کی انگریزوں کے ہاتهوں شہادت پر، ہند واسیوں کی آنکهیں چھلکی ہوں کی نہ چھلکی ہوں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ حضرت ٹیپو کے تقریر میں کہے عین مطابق، حضرت ٹیپو کی شہادت کے بعد، پورا دن کڑکتی بجلی اور بادلوں کی گرگراہٹ کے ساتھ آسمان سے موسلا دھار بارش برس کر، اس عظیم سورما کی شہادت پر قدرت اور سماء کے بلکنے کا نہ صرف ثبوت مہیا کیا تھا.

بلکہ دنیا والوں پر یہ بات اظہر من الشمس کی طرح واضح کردی تھی اگر پورنیہ اور میر صادق نے غداری نہ کی ہوتی تو ایک دن کے توقف بعد ہوئی موسلا دھار بارش، کاویری ندی میں طغیانی لاتے ہوئے، کاویری ندی کے اس پار خیمہ زن،مشترکہ انگرئز نواب و مراٹھا افواج کو وہیں کئی مہینوں تک روکے رکھے،انکی شکشت لازم ملزوم کرتے ہوئے، پورے بھارت کو انگرئزوں کے تسلط غلامی میں جانے سے باز رکھے ہوتے۔لیکن یہاں وہی ہوتا ہے جو مقدر میں پہلےسے لکھا جاچکا ہوتا ہے۔ اس مشہور صحابی رسولﷺ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کی وہ حدیث کہ کوئی انہونی وقوع پذیر ہونے کے بعد، اگر اور مگر لوگوں کے ذہنوں میں کلبلانے لگے تو سمجھیں انکے دلوں میں شرک کا فتنہ جڑ پکڑنے لگا ہے۔

حضرت ٹیپو سلطان شہید کی انگریزوں سے جنگ و شہادت پر پاکستان کے مشہور ناول نگار نسیم حجازی کی “اور تلوار ٹوٹ گئی” ٹیپو سلطان پر لکھی گئی بہترین ناول ہے.جس میں خوبصورت انداز میں مابعدموت کی منظر کشی الفاظ کے زیرو وبم سے درشائی گئی ہے
آج آزاد ہندستان کی جنتا کی اکثریت حضرت ٹیپو سلطان کو آزادی ہند کے سب سے پہلے علمبردار کی حیثیت سے تھوڑے ہی نا جانتی ہے؟ وہ تو اس آزادی کے پہلے ہیرو کا خاتمہ کرنے میں انگریزوں کا ساتھ دینے والے اور اکهنڈ بهارت کو انگریزوں کی غلامی میں جکڑنے میں، انگریزوں کی مدد کرنے والے، شیواجی مہاراج کو نیشنل ہیرو کی حیثیت جاننے لگی ہے. ہند کی آزادی کے بعد آزادی ہند کی جدوجہد کرنے والے تمام چیدہ چیدہ لوگوں کو چهانٹا جانا تھا. ان آزادی کی ہیرو سے ہند کی آنے والی نسل کو متعارف کروانا تھا

. لیکن جد و جہد آزادی کے ان آخری دنوں میں، ہند پر غاصب انگریزوں سے یاری دوستی کرنے والے بھی، آزادی ھند کے مال غنیمت میں حصہ داری کے لئے، آزادی کے ہیرو کا روپ دھارن کرچکے تھے.اور ایک منظم سازش کے تحت آزادی حاصل ہونے سے پہلے ہی آزادی کے متوالوں میں ہندو مسلم کی انانئیت کا بیج بودیا گیا تھا. انگریز جو پهوٹ ڈالو اور راج کرو کے استاد مانے جاتے ہیں، انہیں گانگریس میں شامل ہندو شدت پسند کالی بهیڑوں کا درپردہ ساتھ مل چکا تھا. محمد علی جناح اور نہرو کے بیج اقتدار مسند اعلی کے ہتهیانے کی سوچ ڈال دی گئی تھی، دیڑه انچ کی مسجد بنانے کی سوچ ذہنوں میں ڈالی جاچکی تهی

اور یوں نفرت کے ماحول میں صدیوں سے ساتھ رہنے والے ہندو مسلم دو بهائیوں کے درمیان ہند و پاکستان سرحدوں کی، ان دیکھی دیوار قائم کی جاچکی تھی. دو جسم ایک جان، دو بهائیوں، دو پڑوسیوں کے قلب و اذہان میں پنپنے والی محبت و یگانگت کے جذبات کو نفرت میں بدلا جاچکا تھا. ایسے میں آزادی ہند کی لڑائی لڑنے والوں کو بھی مذہب کی نظروں سے دیکھا جانے لگا تھا. جنم سے ہند میں جنمے،؛جناح کے پاکستان آنے کی دعوت کو ابوالکلام کے وعدوں اور آشوشنوں پر، ہند ہی میں رہنےکو ترجیح دینے والوں کو بھی، ترچھی نظر سے دیکھا جانے لگا تھا. ایسے میں آزادی ہند کی جدوجہد کرنے والوں کی لمبی فہرست میں انگریزوں کے ساتھ، ساز باز کرنے والوں کو اپنی جگہ پکی کروانے کے مواقع میسر ہوگئے تھے

اور غالبا کچھ یہی وجہ رہی ہوگی کہ برادران وطن نے، حضرت ٹیپو سلطان علیہ الرحمۃ کا نام نامی آزادی ہند کے سورماؤں میں دانستا نہیں لیا تها تو اولاً مسلمانوں نے بھی اس نفرت کے ماحول میں ان کا نام لینے کی ہمت جہاں جٹا نہ پائے تهے تو دوسری طرف عادت سے مجبور ہم مسلمان ، شاید اس وقت اپنے اور اپنے آل کی پرورش کی فکر میں منہمک رہ گئے تهے. یہ صدیوں سے مسلمانوں کا المیہ رہا ہے کہ جہاں ہمارے دشمن ہمارے خاتمے کی فکر گلو میں لئے بہت پہلے سے ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہیں،

وہیں پر،ہم مسلمانوں کو اپنے اور اپنے آل کی خوش حالی کی فکر ، ہمیشہ قوم و ملت کی فکر سے نابلد کردیتی ہے. اسی لئے انگریزوں سے ہند کو آزاد کروانے کی تاریخ مرتب کرنے کی یا اس مرتب شد فہرست میں مسلم سورماؤں کے ناموں کا اندراج نہ کروانے کی تمام تر ذمہ داری کہیں نہ کہیں ہم مسلمانوں کے ناتواں کندھوں پر ہی لادی جاسکتی ہے. کیونکہ ہم نے اپنے آزادی کے اس ہیرو کے کارناموں کو طشت از بام نہ کیا اور نہ ہی ان کے کارناموں کو اغیار تک پہنچانے کی سعی کی.

ٹیپو سلطان کے کچھ شاندار کارنامے جن کا تذکرہ نہ کرنا اس تحریر کے نامکمل ہونے کی دلیل ہوگی.
عسکری و حربی اعتبار سے اپنے آپ کو محفوظ رکهنے، دشمن کو تباہ و برباد کرنے والے آج کے موڈرن میزائیل سسٹم کا اغاز حضرت ٹیپو سلطان نے آج سے دو سوا دوسو سال قبل ہی کردیا تها، جس کا اظہار فی زمانہ ہند کو میزائیل ٹیکنالوجی عطا کرنے والے فادر آف دی میزائیل ٹیکنالوجی ان انڈیا،

سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام مرحوم نے پریس ریلیز میں ٹیپو سلطان سے میزائل ٹیکنالوجی کی پریڑنا ملنے کی بات کہہ کر، کردی تهی. یہی نہیں آج کے عالم کے معشیتی و حربی سربراہ عالم، صاحب امریکہ کے تحقیقاتی ادارے ناسا کے استقبالیہ ھال کی دیوار پر،گھوڑے پر سوار ایک ہاتھ میں لگام تو دوسرے ہاتھ میں میزائل لی ہوئی قد آدم سے بھی بڑی پینٹنگ حضرت ٹیپو سلطان شہید علیہ الرحمہ کے میزائل ٹیکنالوجی سے عالم انسانیت کو متعارف کروانے کے لئے کافی ہے

ٹیپو سلطان نے اپنے علاقے میں حربی ساز و سامان تیار کرنے کی فیکٹریاں آج سے دو سو سال پہلے ہی قائم کردی تهیں
علاقہ میں دستیاب ریشم کے کیڑوں سے ریشمی دھاگے کشید کر بہترین ریشمی کپڑا تیار کرنے کی سرکاری فیکٹری بھی دو سو سال قبل میسور کے علاقے میں قائم کی جا چکی تھی.

میسور کا مشہور و معروف پانی محفوظ رکھ بجلی تیار کرنے کا ڈیم بنانے کی شروعات ٹیپو نے اپنے زمانہ میں ہی کردی تھی لیکن اپنوں کے دهوکہ کے باعث شہادت نے اس کام کو تکمیل کا موقع انہیں نہ دیا. حضرت ٹیپو کی شہادت کے دیڑه سو سال بعد حکومت کرناٹکا نے اس ڈیم کا کام شروع کیا تو ٹیپو کے زمانہ میں اس ڈیم کے سنگ بنیاد کی فارسی میں لکهی سنگ مر مر کی تختی ملنے سے اسی جگہ حضرت ٹیپو کے ڈیم شروع کرنے کے ارادے کے بارے میں پتا چلا تھا.

بنجر زمین کو کاشت کے قابل بنانے کے لئے، جو بنجر زمیں کو کاشت کے لائق بنائےگا زمین اس کہ نام کردی جائیگی یہ اعلان کر بنجر زمیں کو کاشت کے لائق بنانے کا عمل حضرت ٹیپو سلطان کے زمام اقتدار میں شروع ہوا تها، بنجر زمین کو قابل کاشت بنانے کی یہی وہ اسکیم تهی جسے اسی کے شروعات میں ہند کی پرائم منسٹر محترمہ اندرا گاندھی صاحبہ نے قابل زراعت بنائی گئی سرکاری زمین کاشت کرنے والے کے نام کردی جائے یہ آرڈیننس جاری کیا تھا.
مسلمانوں کے مقدس شہر مکہ المکرمہ جو اس وقت میٹھے پانی کے لئے ترستا تها، دوردراز علاقے عراق کی دجلہ ندی سے مصنوعی نہر بنا میٹھے پانی کو مکہ تک لانے کے لئے نہر زبیدہ کے رکے پروجیکٹ کو شروع کرنے کی پیش کش، اس وقت خلافت ترکیہ کو دی تهی.اور نہر کے کام کو شروع کرنے کی صورت مالی و فردی مدد دینے کا بھروسہ خلافت ترکیہ کو دلایا تھا.

میسور میں اپنے محل کے قریب ہی شاندار مندر اپنی نگرانی میں تعمیر کرواکے ہندو مسلم بهائی چارگی کی بہترین مثال پیش کی تھی.

ہزار سالہ گیڈر کی زندگی پر ایک دن کی شیر والی زندگی کو ترجیح دینے کا ایمان افروز نعرہ بهی حضرت ٹیپو سلطان مرحوم کا دیا ہوا ہے

آج سے دو سو سال قبل پند سے آنگریزوں کو بار نکالنے کے لئے عالمی سطح کے انگریزوں کے اس وقت کے دشمن فرانس سے سفارتی تعلق رکھ مدد لینے کی اس وقت سعی کی تھی.

آج حضرت ٹیپو کی شہادت پر دو سو پچیس سال کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد، حضرت ٹیپو سلطان شہید کے سنہرے کارناموں کو ہندستان کی عام جنتا تک پہنچانے کا بیڑہ رئیان اسلامک ہیریٹیج فاؤنڈیشن نے اٹهایا ہے .ان کی دامے درمے سخنے جتنی بهی مدد و نصرت کی جائے کم ہے.التماس ہے شہر بهٹکل کو حضرت ٹیپو سلطان کی ننھیال کے جد امجد، قوم نائط سے خونی رشتہ رہا ہے اور شہر بهٹکل میں حضرت ٹیپو سلطان کی تعمیر کردہ سلطانی مسجد کے متولیانہ حقوق کے قانونی کاغذات اب تک موجود ہیں

اور حضرت ٹیپو سلطان شہید کی تاریخ پر معرکہ الآراء کتاب تحریر و طبع کرنے والے حضرت مولانا الیاس جاکٹی ندوی کے پاس کافی کچھ مواد موجود ہے اس لئے حضرت ٹیپو سلطان کے کانامہ حیات کو مرتب کرنے والوں سے التماس کی جاتی ہے کہ بهٹکل آکر ان حضرات سے بنفس نفیس ملاقات کریں انکو بہت فائیدہ ہوگا ان شاءاللہ . صاحب خیر لوگوں سے بهی دامے درمے سخنے تعاون کی التجا کی جاتی ہے.
ہمارا تابناک و روشن ماضی یاد رکها جائیگا تو تابناک و روشن مستقبل کی امید رکهی جا سکتی ہے . آزادی ہند کے اسرٹه 68 سال بعد کم از کم کرناٹک کی کانگریس سرکار کو آنگریزوں کے خلاف آزادی ہند کی جنگ لڑتے شہید ہونے والے پہلے مسلم حکمران کے نام دس نومبر ایک دن سرکاری طور پر بہ یاد ٹیپو منانے کا خیال تو آیا ہے . اس کے لئے ہم حکومت کرناٹک کے کانگریسی چیف منسٹر سدی رامیا جی کے ممنون و مشکور ہیں.

افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ سنگھ پریوار اور ان کی ذیلی تنظیموں کو ہند کے پہلے آزادی پند کے لئے انگریزوں سے لڑتے لڑتے شہید ہونے والے ایسے سیکیولر مسلم رہنما حضرت ٹیپو سلطان علیہ الرحمۃ کی یاد میں سرکاری طور پر منائے جانے والے ٹیپو دیوس کی مخالفت کرکے، اپنی مسلم دشمنی کو ثابت کر رہے ہیں. ہم کرناٹک کے لاکهوں کروڑوں سیکیولر ہندو بهائیوں کے مشکور ہیں کہ انہوں نے ٹیپو دیوس کو مسلمان بهائیوں کے ساتھ مناکر کم از کم کرناٹک میں ہندو مسلم بھائی چارگی کا مبین ثبوت دیا ہے. وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں