چاروں امام برحق، لیکن انکی آپنی آراء کے خلاف تقلید جامد پر زور کیوں؟
نقاش نائطی
نائب ایڈیٹر اسٹار نیوز ٹیلوزن دہلی
۔ +966562677707
چار اماموں سے کسی نہ کسی ایک امام کی تقلید واجب قرار دینے والوں کے لئے سوال، چاروں اماموں میں سب سے پرانے امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفی ﷺ کی وفات کے ایک سو بیس سال بعد 699 عیسوی بمطابق 120 ھجری سال ملک عراق کے کوفا شہر میں پیدا ہوئے اور 68 سال کی عمر میں767 عیسوی بمطابق 188 ھجری سال شہر بغداد میں انتقال کرگئے تھے
.انکے امام اعظم بننے سے پہلے والے ڈیڑھ سو سے پاؤنے دو سو سال دوران والے، صحابہ کرام رضوان اللہ الاجمعین تابعین و تبع تابعین سمیت سب اہل سلف (پرانے مسلمان) کس امام کی اتباع کرتے تھے؟ اگر وہ تمام اہل سلف، قرآنی احکامات اور خاتم الانبیاء سرور کونیں محمد مصطفیﷺ کی احادیث مبارکہ پر عمل کرنے والے، اہل حدیث تھے تو، پھر آج کے ہم مسلمانوں پر،اہل سلف والے قرآن و حدیث کو چھوڑ کر،چار اماموں میں سے، کسی ایک کی اتباع واجب کیوں قرار دی جا رہی ہے؟اور یہ واجبیت کس نے کی ہے؟
وہ بھی شرک و بدعات میں مستغرق اہل سنہ والجماعہ والے،آج کل ھند و پاک میں رائج دین حنفیت پر،عمل پیرائی کی دعوت کیوں دی جا رہی ہے؟جبکہ چاروں آئمہ کرام نے، اپنے ماننے والوں کو یہ صریح ہدایت دی تھی کہ انہوں نے جو اجتہادی فیصلے قرآن و حدیث کی روشنی میں دئیے ہیں، اگر مستقبل کے دنوں میں، وہ صحیح احادیث کی روشنی میں غلط یا کمزور ثابت ہوئے تو انکے اجتہادی فیصلوں کو دیوار پر مار دیا جائے یعنی عمل سے گریز کیا جائے، کیا خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفیﷺ پر، مالک دوجہاں کی طرف سے اتارے گئے
قرآن مجید کے صاف صاف احکامات اور خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفیﷺ کے عمل کر دکھائے اور کہے ہوئے احکامات، احادیث مبارکہ اور پورے سو دوسو سال تک اہل سلف کے عمل کر دکھائے دین اسلام پر،عمل آوری کیا مشکل امر ہے؟ کہ 2000 ملین ہم مسلمانوں کو چار اماموں کے پیچھے، تقلید کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے؟ ٹھیک ہے جو مسلمان قرآن و حدیث میں، ان سلجھے مسائل پر، ان اماموں کی تقلید کرتے ہیں تو بھی ایک حد تک ٹھیک ہوسکتا ہے۔لیکن کیا اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ، خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفی ﷺ نے، اپنے نبی بننے کے بعد والے 23 سالہ نبوی زندگی میں،
اللہ کے دین اسلام کو، انسانیت تک پہنچانے میں نعوذ باللہ کچھ کمی چھوڑی ہے؟ جو ان اماموں نے آگے چل کر حل کردیا ہو۔جبکہ اللہ کے رسول خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفیﷺ نے، اپنے آخری حجتہ الوداع کے موقع پر، اس وقت انکے سامنے میدان عرفات موجود ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے سامنے، *اليوم اکملت دینکم” “آج ہم نے پورے پورے دین کو تم تک پہنچادیا” کہتے ہوئے، پورا پورا دین پہنچانے کی تصدیق کیا نہیں کرائی تھی؟اسی کے دہے سےقبل تک، ھندو وپاک بنگلہ دیش سمیت عالم کے،ہر ہر کونے میں،دین اسلام میں شرک و بدعات، ایسے سموئے ہوئے تھے کہ مسلمانان عالم، ان شرک و بدعات ہی کو،دین اسلام کا حصہ تصور کئے، اسی پر عمل پیرا تھے
۔اسی کے دہے کے بعدعرب ممالک میں پیٹرو ڈالر کمائی کے مواقع نے، جہاں عالم کے بیشتر ممالک کی معشیت کو سنبھالنے کے مواقع فراہم کئے تھے، وہیں عرب کھاڑی کے مختلف عرب ممالک میں، خصوصاً مملکت سعودی عرب میں ان ایام عالم کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ سلف و صالحین کے وقت کا دین اسلام ہی رائج عمل تھا۔ سعودی عرب میں عالم انسانیت کے کم و بیش 160 ملین ہم تارکین وطن نے،جس میں سے، ہم بھارت پاکستان بنگلہ دیش کے غریب مسلمانوں کی اکثریت ہی حصول معاش سعودی سرزمین پر آئی ہوئی تھیں،
یہاں سے پیٹرو ڈالر کے ساتھ، دین سلف صالحین بھی، اپنے اپنے ملکوں، علاقوں میں لیجاتے ہوئے، اپنے یہاں کے شرک و بدعات میں مستغرق دین کو سدھارنے کا انہیں بہترین موقع ملا تھا۔ پورے ھندستان میں سابقہ نصف صد سال قبل سے، اب تک دین دارعلاقہ مشہور جنوب ھند کرناٹک بھٹکل بھی، اسی کے دہے سے قبل تک، کس قدر شرک و بدعات میں مستغرق تھا، یہ ہم ہی بہتر جانتے ہیں۔ لیکن الحمد اللہ، ھند و پاک بنگلہ دیش کے مقابلے، آج بھی علاقہ بھٹکل، اپنے شرک و بدعات سے ماورا ایک حد تک، اپنے خالص عملی دینی اقدارکے ساتھ، اپنی ایک خاص امتیازیت رکھتا ہے۔ کیرالہ، آندھرا، ٹامل ناڈ،
مہاراشٹرا، یوپی بہار، کلکتہ کون سا علاقہ بھارت میں ایسارہ گیاہے؟ جہاں عرب کھاڑی کے مختلف ممالک خصوصاً مملکت سعودیہ کےپیٹرو ڈالر معاشی استحکامیت کے ساتھ ہی ساتھ، دینی اقدار معمار سعودی عرب شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی والا،سلف صالحین دین اسلام اقتدار، عمل پیرا، دینی تفکر نے، وہابیت، سلفیت، مجاہدیت اور تفکر اہل حدیث کے نام نامی سے، ھند و پاک میں،ایسے اپنے پاؤں پھیلانے شروع کئے تھے۔
کہ شمالی ھند کے دین اسلام کےقلع مشہور دیوبند و ندوہ کے علماء کرام تک کوحضرت مولانا سلمان ندوی مدظلہ کی امارت میں، ھند کے 85% احناف کو، اپنے دین حنفیت بقاء کے لئے،بھارت میں موجود 15% شوافع کو زبردستی ساتھ لئے،(بھارت میں مالکی و حنبلی مسلک کے ماننے والوں کی فقدان باوجود) ائمہ اربعہ بقاء تحریک دیش بھر میں چلانی پڑگئی تھی۔ اور عالم کی بہترین اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ فارغین، ھندی مدنی علماء تک کو، دین اسلام میں اختلاف و منافرت پیدا کرنے والا قرار دیتے ہوئے، قابل گردن زد تک کے فتوے جاری کرنے پڑے تھے۔ اور یہ سب صرف اور صرف ھند و پاک میں رائج شرک و بدعات میں مستغرق،دین حنفیت کی موجودہ شکل و ہئیت ہی کی بقاء کی خاطر کیا گیا تھا۔
پہلے غیر ترقی پزیر زمانے میں، جب ایک ایک حدیث یا مسئلہ پوچھنے کے لئے، بے انتہا حد تک مشکل اٹھانی پڑتی تھی، لیکن آج الحمد اللہ، اغیار کے ترتیب دئیے گئے، گوگل فیس بک پر، قرآن مجید کے مختلف مستند صحیح تراجم کےساتھ ہی ساتھ، صحیح احادیث پرمشتمل ستہ صحاح، بالکل صحیح حالت میں موجود ہیں۔ اور ہر کسے کے پاس دستیاب اسمارٹ فون پر، انگلیوں کی معمولی جنبش سے کھولے، پڑھے، اور کسی بھی معاملے پر سیر حاصل معلومات حاصل کئے جا سکتے ہیں تب پھر تقلید جامد کے نام سے، فی زمانہ ھند و پاک بنگلہ دیش کے ساتھ، عالم کے ایک بہت بڑے حصہ انسانیت پر، رائج شرک و بدعات پر مشتمل دین حنفیت پر عمل آوری پر اصرار کیوں؟ اہل طریقت کے نام درگاہوں پر براجمان شرک و بدعات و خرافات پر عمل پیرا، اور ھند و پاک کی اکثریتی مسلم آبادی کے عمل پیرا، نیز خاص طور پر دیوبندی ندوی علماء کرام تک کو، کافر قرار دینے والے ،اہل سنہ و الجماعہ والے دین حنفیت کی نکیر کرنے کی ہمت، اپنے آپ کو برحق دین طریقت پر عمل پیرا مسلمانوں کو کیا ہے؟
یہیں آکر ہم مسلمان اپنی کثیر تعداد باوجود، مسلکی نااتفاقی کی وجہ، مختلف فرقوں، گروہوں میں بٹے، پارہ پارہ ہوجاتے ہیں۔ایسے پرآشوب دور فتنہ ارتداد ، یہود و نصاری غلبہ والے ماحول میں، بھارتیہ سنگھی برہمنی مسلمانوں کو، لنچنگ اموات مارتے یا فسادات میں شہید کرتے، اور املاک تباہ کرتے وقت، ہمارے مسلک، فرقے کو پوچھ،ہم پر حملہ نہیں کیا کرتےاور یہود ونصاری والے بمبار طیارے، آپنی وحشیانہ بمباری کے وقت، ہمارے مسلک و فرقہ کی پرواہ نہ کئے، ہمیں ختم کرنے کے درپے پائے جاتے ہیں
۔ اس پس منظر میں، عالم کے آج کے ہم 2000 ملین مسلمان، اپنے آقاء نامدار محمد مصطفئ ﷺ کے، مالک دوجہاں کی طرف سے اتارے گئے آسمانی کتاب، قرآن مجید کے احکامات اور اللہ کے رسول ﷺکے عمل کر دکھائے، احادیث شریفہ والے سلف و صالحین کے دین اسلام پر، عمل پیرا ایک وحدہ لا شریک لہ والی امت میں، خود کو کیا ڈھال نہیں سکتے ہیں؟ یہ ایک اہم موضوع ہے اور اہل علم کو اس پر تدبر غور و فکر کرنا چاہئیے۔ اور 2000 ملین آبادی والی مسلم قوم کو، ایک کلمہ ایک نبی ایک مسلک سلف و صالحین، کو ماننے والے، یکجٹ، محبت، اخوت کے ساتھ مل جل کر، ایک طاقت کے طور کیا نہیں رہ سکتے ہیں؟
یاد رکھیں بعد الموت قبر میں اور کل محشر کے دن پوچھے جانے والے سوال میں یہ سوال کبھی نہیں پوچھا جائیگا کہ ہم آپ، کس امام کے مقلد جامد تھے بلکہ یہ سوال ضرور پوچھا جائیگا کہ ہم اللہ کے کلام قرآن مجید کے احکام اور رسول خدا محمد مصطفی ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا تھے کہ نہئں؟ وما التوفئق الا باللہ
چاروں امام برحق، لیکن انکی آپنی آراء کے خلاف تقلید جامد پر زور کیوں؟
گھر کو آگ لگی گھر ہی کے چراغ سے
پورے عالم پر اثر انداز ہوتے 3/4 عالم پر حکمرانی کرنے والے دین اسلام کو ہم مسلمانون ہی نے کس قدر پراگندہ کر چھوڑا ہے
ہم مسلمانوں نے اہل سنہ والجماعہ کے دل لبھاؤنے نام نامی کے ساتھ، صوفی ازم کے تحت شریعت طریقت معرفت حقیقت مجذوبیت کی آڑ میں،دین اسلام کو کس قدر پراگندہ کردیا ہے کہ اہنے طور دین اسلام کی تڑپ لئے،مائل اسلام ہونے والے سناتن دھرمی ھندوؤں کو انکے بگڑے ہوئے سناتن دھرم اور دین اسلام میں کچھ فرق نظر نہیں آتا ہے اور یوں مائل اسلام یہ سناتن دھرمی داخل اسلام ہونے کے بجایے، بدھ مت اختیار کرنے مجبور ہوجاتے ہیں ابن بھٹکلی