ہم پا کستانی اور پا کستان ہمارا ہے !
ُٓپا کستانی قوم ایک بار پھر چودہ اگست تجدید عہد کے طور پر بڑے جوش و خروش کے ساتھ منا رہی ہے، ہر سال ہی چودہ اگست ایسے ہی بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے ،لیکن اس کے بعد سارا سال آزادی کی بقا کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جاتا ہے ، اس ملک عظیم کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہاہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ،سب پر ہی روز روشن کی طرح عیاں ہے،حکمران اشرافیہ سے لے کر فیصلہ ساز وںتک سارے ہی ملک کو آگے لے جانے کے بجائے پیچھے دھکیلنے میں لگے ہوئے ہیں ،
ہر ادارے کی زبو حالی کا حال ایسا ہے کہ ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے اور اس شاخ کو ہی کاٹے جا رہا ہے ، اس صورتحال میں ملک کا مستقبل تاریک ہی دکھائی دیے رہا ہے۔یہ ملک اتنی سانی سے حاصل نہیں کیا گیا ، جتنی آسانی سے ڈبونے کی کوشش کی جارہی ہے ، اس ملک کو حاصل کرنے کیلئے بڑی قربانیاں دی گئی ہیں ، ہماری آج کی نوجوان نسل پر واضح ہوناچاہیے کہ اس سرزمین پر آ کر سجدہ شکر بجا لانے والوں کے کتنے ہی پیارے راہ میں مار دیئے گئے،
کتنی سہاگنوں کے سہاگ اور کتنی خواتین کی عزتیں لٹیں، کتنے ہی لوگ اپنی جائیداد اور گھر بار چھوڑ کر ایک آزاد مملکت کے آزاد شہری بننے کی خواہش دل میں لیے اور آنکھوں میں خواب سجائے یہاں تک پہنچے تھے،کیا ہمیں ان خوابوں کی تعبیر مل چکی ہے یا ابھی تک رہبر و رہزن کی پہچان ہی نہیں کر پا رہے ہیں اور کٹھ پتلی بنے دوسروں کے اشاروں پر ہی ناچے چلے جارہے ہیں اور دعوئے آزادی کے کرتے ہیں ، جبکہ ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
یہ سب کچھ کیا دھرا آزمائی حکمران اشرافیہ کا ہے کہ جس نے ایک آزاد قوم کو اپنی عیاشیوں کیلئے دوبارہ اغیار کا غلام بنا دیا اور ملک کو قر ضوں میں ڈبودیا ہے ،اس غلامی سے عوام چاہتے ہوئے بھی آزاد ی حاصل کرپارہے ہیں نہ ہی قرضوں کے بوجھ سے نجات حاصل کر پارہے ہیں، عوام اپنی آزادی کیلئے لگاتار قر بانی دیے رہے ہیں ، مہنگائی بر داشت کررہے ہیں ، بے روز گاری کاٹ رہے ہیں ، آضافی بل اور ٹیکس دے کربھوکے سورہے ہیں ، لیکن آزادی حاصل کر پارہے ہیں نہ ہی اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی لاپارہے ہیں ،
کیو نکہ اس ملک پر آزمائے آسیب کا سایہ ہے ،جو کہ لاکھ چاہنے کے باوجود جان چھوڑ رہا ہے نہ ہی کسی پکڑ میں آرہا ہے،یہ آسیب کا سایہ جب تک ملک و عوام پر ایسے ہی مسلط رہے گا ، ملک چل پائے گا نہ ہی کبھی آگے بڑھ پائے گا۔اس ملک کو قائم ہوئے چحھتر سا ل ہو گئے ہیں ، لیکن ہم آگے بڑھنے کی بجائے روز بروز پیچھے ہی کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں، آئے کاش کہ قائد اعظم جیسے مخلص و نڈر لیڈر کے بعد اس ملک کو ایک ہی کوئی ایسا مسیحا اور رہنما مل جاتا ،جو کہ اس بھٹکی ہوئی
قوم کو صحیح راستے پر چلاتے ہوئے منزل تک پہنچا کر ہی دم لیتا،لیکن بدقسمتی سے رہنما ملے بھی تو ایسے جو کہ خود ہی راہوں سے بھٹکے ہوئے ہیں، یہ آزمائے قوم کو کیا راستہ دیکھائیں گے اور کیسے آگے لے کر جائیں گے ، یہ عوام کو ماسوائے دعوئوں اور وعدئوں کے کچھ دیے پائے ہیں نہ ہی ان میںعوام کیلئے کچھ کر نے کی صلاحیت ہے ، یہ ملک لوٹنے اور اپنی تجوریاں بھر نے کا ہی ہنر جانتے ہیں اور ہر باراپنا ہنر آزمائے جارہے ہیں، انہیں کوئی روک رہا ہے نہ ہی کوئی ٹوک رہا ہے ، کیو نکہ اس ملک کے چوکیدار ہی چوروں سے ملے ہوئے ہیں اور ان کی نگرانی میں ہی سب کچھ ہورہا ہے ، ملک ڈوب رہا ہے اور عوام سراپہ احتجاج ہیں ، جبکہ ہمارا انیرو چین کی بانسی بجائے چلا جارہا ہے۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ ملک و عوام کے حالات انتہائی خراب ہیں اور ہم اغیار کی غلامی میں جکڑے آزادی کا جشن منارہے ہیں، جھنڈیاں لگارہے ہیں، رنگ بر نگے غبارے چھوڑ رہے ہیں، باجوں کی پاں پاں کے ساتھ گلی کوچوں اور سڑکوں پر طوفان بدتمیزی مچا رہے ہیںاور سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے جشن آزادی اور تجدید عہد وفا کا حق ادا کر دیا ہے ، ائے کاش ہم سب اپنے ساتھ اور اپنے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک اور ان کے عوام کے جذبے کی طرف دیکھیں اوران کی ترقی پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہو گا
کہ ہم لوگ ان چحھترسالوں میں کہاں کھڑے ہیں اور اس وقت ہمیں کہاں ہونا چاہیے تھا، لیکن یہاں کوئی اپنے گریباں میںجھانک رہا ہے نہ ہی اپنی کوتاہیاں تسلیم کررہا ہے ، بس ایک ہی صدا لگائے جارہا ہے کہ ہم سے پا کستان اور پا کستان ہمارا ہے ، لیکن پا کستانی ہو نے کا کوئی حق ادا کررہا ہے نہ ہی اس کی روح کے ساتھ جشن آزادی منارہا ہے ۔