85

اقبال تیرا شاھین،،،قاید تیری امید،،

اقبال تیرا شاھین،،،قاید تیری امید،،

کالم نگار ،،،شمع صدیقی
اقبال تیرا شاھین،،،قاید تیری امید،،
آج پھر اللہ کریم نے ہمیں ایک بار وہ ساعتیں نصیب کی ہیں اور آج ہم سب اہل وطن ایک بار پھر جشن آزادی منا رہے ہیں کہ ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے کہ ہم اپنے وطن سے بہت پیار کرتے ہیں اور جتنا پیار ہم کرتے شاید کوئی اور کر ہی نہی سکتا ایک طوفان بدتمیزی برپا کیا ہوا ہم سب نے بے ہنگم شور باجوں کی آ وازیں چیخ پکار یہ سوچے بنا کہ کوئی ہماری ان حرکتوں سے پریشان بھی ہو گااور قارین ہم اس قسم کی حرکتیں کر کے کیا یہ پیش کررہے کہ ہم اپنے ملک سے بہت پیار کرتے ہیں ۔ہر گز ایسا نہی ہے ۔
جی قارین ایسا نہی ہے ہم اقبال کے وہ شاہین تھے جسکے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا
محبت میجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند ۔جی ہمنے ستاروں پر کمند تو نہ ڈالی ،شاید ہم کمند ڈال بھی دیتے کہ کہ ہمیں بہت ساری ایسی سازشوں کا شکار بنا دیا کہ کہیں ہم علامہ اقبال کی امنگوں انکی خواہشوں کو عملی جامہ نہ پہنا دیں اور دنیا میں ہم علامہ اقبال کی امیدوں کے ترجمان ایسا کر ہی نہ بیٹھیں۔ اغیار یہ جانتے ہیں کہ یہ وہ نوجوان ہیں اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر جب میدان میں اترتے ہیں

تو دشمن کی صفوں کا صفایا کر دیتے ہیں اور اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہوے دنیا کی فاتح قوم کی حیثیت سے اپنا نام نہ روشن کر لیتے ہیں مگر اب اسکے برعکس معاملات ہیں اور ہم اپنے مقاصد سے ہٹ چکے ہیں اب صرف دنیاکی نظر میں علامہ اقبال کی امنگوں کے ترجمان بن کر ابھریں اور دنیا کی کوئی قوم ہمارے آ گے ٹہر نہ سکے ۔ ہمیں اس مقصد سے ہٹا دیا گیا ہے اورہم سازشوں کا شکار ہو گئے

دنیا کی پوری اقوام کو معلوم ہے کہ جب مسلمان انشاللہ کہکر میدان میں کودتا ہے تو وہ اپنے سامنے والے کے ارادوں کو تہس نہس کردیتا ہے اسکے اندر اتنی طاقت ہوتی ہے کہ سامنے والا اسکے آ گے ٹہر ہی نہی سکتا کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ تو علامہ اقبال کا شاہین ہے اور یہ کسی بھی مقام پر رکنے اور ٹہرنے والا نہی ۔
مگر ہم شرمندہ ہیں کہ پہلے ہمارے نوجوانوں میں یہی جزبے سرایت کرتے تھے افسوس اب وہ نہی رہے کیوں نہی رہے میں بتاتی ہوں کہ اب ہمارے شاہینوں کے ہاتھوں میں موبائل کا تحفہ دے دیا گیا اب ہمارے شاہنوں کو ٹک ٹاک ،فیس بک،مسنجر،واٹس آپ اور راتوں کو فری پیکجز کا عادی بنا دیا گیا افسوس وہ جری نوجوان ،وہ اقبال کے شاہین جو اپنے ملک کہ محبت میں کٹ مرنے کو اپنی شان سمجھا کرتے تھے اور وطن پر ٹیرھی آ نکھ رکھنے والوں کی آ نکھوں کو نکالنے کی صلاحیت رکھتے تھے

انکے ضمیروں کو سلا دیا گیا اب ان وطن کے پاسبانوں کے ہاتھوں سے تلواریں چیھن کر انکو یہ موبائل جیسے فتنے میں غرق کر دیا گیا دشمن نے انکو صلاحیتوں کو سلادیا انکے جذبوں کو ماند کر دیا انکی غیرت کو بھی کہیں دور ڈال دیا گیا جسکا انہیں احساس بھی نہ ہوا کہ وہ انہوں نے کیسے اپنے پرکھوں کی قربانیوں کو فراموش کر دیا وہ بھول گئے کہ یہ وطن یہ ہمارا پیارا پاکستان تو اک خواب کی تعبیر ہے جو علامہ اقبال نے برسوں پہلے دیکھا تھا اور ہم ان نوجوانوں کو سلام پیش کرتے ہیں

اس خواب کی تعبیر پانےکے لیے وہ نوجوان جنہوں نے اپنی زندگی کی ہر خواہش کو علامہ اقبال اور قائد اعظم کی اک پکار پر اپنا سکھ چین سب قربان کر دیا تھا اور لبیک کہتے ہوے حاضر ہوئے تھے کہ وہ اسوقت تک چین سے نہی بیھٹں گے جب تک وہ ایک آ زاد وطن حاصل نہی کر سکتے اور اسکی تعبیر نہی پا لیتے اور انہوں نے کر دیکھایا الحمدللہ آ ج ہم آ زاد وطن میں سانس لے رہے ہیں ۔
مگر تکلیف اسبات کی ہے کہ ہم آ زاد تو ہو گیے مگر زہنی طور پر اب بھی غلام ہیں ۔ہم بجاےاسکے کہ دنیا کو بتاتے

کہ ہم غلامی سے نجات پا آ ے ہیں ہم اپنی پہچان بھول کر ہم انہی کے نقش قدم پر چل پڑے اور روایات اور اپنے اسلاف کی قربانیوں کہ بھلا بیٹھے ۔ہم نے مغرب کی تقلید میں جو کہ میں سمجھتی ہوں کہ خاص طور پر پیش ہی یہاں اس لیے کی جاتی ہیں کہ ان نوجوانوں کو کو انکے مقاصد سے ہٹایا جاے اور وہ یہ حملے مسلسل کر رہے ہیں وطن کے ان پاسبانوں کے لیے کبھی انکو سیگریٹ نوشی کے ایسے ایسے ہتھکنڈوں کا شکار بناتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل بہت آ سانی سی اسکی عادی ہو جاتی ہے ،

اور کبھی وہ اس قسم کے فیشن پیش کرتے ہیں کہ وہ نوجوان جو دور سے دیکھنے سے پتہ چلتا تھا کہ مرد ایک گبھرو نوجوان ہے اور دھرتی پنجاب سے اسکا تعلق ہے یعنی اک پہچان ہوا کرتی تھی مگر افسوس اب کیا ہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے نہ ادھر کے ہم
جی اب اگر آپ دور سے کسی عورت یا لڑکی کو آ تا دیکھنگے تو نزدیک آ نے پر معلوم ہو گا کہ وہ تو کوئی لڑکا ہے یا اس ملتا جلتا مرد افسوس انکی سوچ پر انکی زہنیت پر کہ تم کیا تھے اور اپنی پہچان گنوا کر کیا بن بیٹھے ۔

بہت تکلیف ہوتی ہے اپنے وطن کے شاہینوں کو اس حال میں دیکھ کر یعنی کسی کو بھی احساس ہی نہی رہا کہ ہم کیا تھے اور کیا ہو گئے ۔یعنی علامہ اقبال نے جو برسوں پہلے اپنے نوجوانوں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہی فراغ کہ تو،
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہی۔
جی قارین یہاں پر اسبات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے دین سے بھی دور ہیں کہ ہم اللہ کریم کے احکامات کو بھی بھول گئے ہم نے اس مقدس کتاب کو چھوڑ دیا جو ہماری رہنمائی کرتی ہے ہم دنیا کے پیچھے لگ کر اپنی زندگی کے مقاصد کو بھول گیے اور سب سے بڑی بات ہم اپنا گھر
اپنے پاکستان کو دنیا کے نقشے پر اس بلندی تک نہ لے جائے جہاں اسکو ہونا چاہیے تھا ۔
اب بھی وقت ہے

کہ ہم جاگ جائیں ہم سے ہمارے قاید نے ہمارے علامہ اقبال نے جو امیدیں وابستہ کیں ہم ان پر عمل پیرا ہوں ہم دنیا کو بتادیں کہ اس وطن پاکستان کا ہر نوجوان اقبال کا وہ نوجوان ہے جو ستاروں پر کمند ڈال سکتا ہے اور یہ وہ شاہین ہے جسکا بسیرا صرف چٹانوں پر ہی ہوتا ہے
وقت اب بھی ہمارے ہاتھوں میں ہے کمند اب بھی ہمارے پاس ہے بس وقت ہے کہ ہم اپنی پہچان اقوام عالم میں اپنی خودی سے بنائیں اور دنیا کو یہ باور کروا دیں کہ یہ نوجوان وطن کے وہ پاسباں ہیں کہ جنکا مقصود ہے
جھپٹنا پلٹنا، پلٹنا چھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
دعا ہے رب کریم سے کہ مری عرض پاک کو ہمیشہ اپنی نگہبانی میں رکھنا اور دنیا کی ہر سازش کو شکار ہونے سے بچانا ۔
خدا کرے کہ مری عرض پاک پر اترے وہ فصل گل جیسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا ہی رہے برسوں
یہاں سے خزاں کو گزرنے کی مجال بھی نہ ہو
آ مین ثمہ آ مین
اس امید کے ساتھ کہ شاہید تیرے دل میں اتر جاے مری بات اور دل سے دعا کے ساتھ کی رب کریم مرے وطن کے نوجوانوں میں میں پھر وہی آگ بھر دے وہ جذبہ موجزن کر دے جو علامہ اقبال نے دیکھا محسوس کیا سوچا تاکہ وہ ایک ایسی شیشیہ پلائی دیوار بن جاے کہ دشمن کو ادھر بھولے سے بھی دیکھنے کی مجال نہ ہو آمین ۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں