اپنی بقا ء کی کشمکش !
ملک میں مہنگائی بے روز گاری کا طوفان بر پا ہے اور عوام پر یشان حال ہیں، لیکن حکومت مہنگائی کم ہو نے کے جھوٹے دالاسے ہی دیئے جا رہی ہے ،جبکہ پاکستان کے نوے فیصد عوام کی قوت خرید ہر آئے دن کم سے کم ترہو تی جا رہی ہے، اس وقت غریب اور مڈل کلاس ایک جیسی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، جب کہ معاشی طور پر کچھ بہتر لوگ بھی مطمئن نظر آرہے نہ ہی کاروباری حالات ساز گار ہوپا رہے ہیں ،
اس کی وجہ سے ہی سیاسی اور معاشی عدم استحکام ہے، اس کو حل کرنے کے لئے بہتر حکمت عملی بنانے کی اشد ضرورت ہے، لیکن حکومت استحکام لانے کی بہتر حکمت عملی بنانے کے بجائے خود کو بچانے اور اور اپوزیشن کو دیوارسے لگانے پر ہی لگی ہوئی ہے ،اس کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک میں استحکام کے بجائے مزید عدم استحکام بڑ ھتا چلا جارہا ہے۔اگر دیکھا جائے تو ملک کے بدلتے حالات بتا رہے ہیں کہ اتحادی دوسری مر تبہ نہ صرف ناکام ہونے جارہے ہیں، بلکہ مایوس بھی ہوتے جارہے ہیں ،
جبکہ اصل حکمراں ان کی نااہلی کی وجہ سے سخت پریشان ہیں اور کسی نئے بندوبست پر تیزی سے کام کررہے ہیں، اس کا اندازہ اتحادیوں کو بھی ہو چکا ہے ،اس لیے ہی ملاقاتوں کا سلسلہ چل رہا ہے، ایک طرف اتحادی آپس میں مل رہے ہیں تو دوسری جانب مو لانا فضل الرحمن کو بھی منانے اور ساتھ چلانے کی کوشش کی جارہی ہے ، لیکن اس بار ایسا لگ رہا ہے کہ مو لانا استعمال ہو ں گے نہ ہی ساتھ چلیں گے ،اس بارآصف علی زرداری کا تحفہ مولانا کو رام کر پائے گا نہ ہی محسن نقوی کا کوئی وار چل پائے گا،
مولانا آزمائے کو آزمانے چاہتے ہیں نہ ہی کسی آزمائش کا بوجھ اُٹھا نا چاہتے ہیں، مولانا نے سب کچھ ہی مجلس شوریٰ پر ڈال کر جان چھڑارہے ہیں۔اس بار صاف نظر آرہا ہے کہ اپنے ہی بوجھ سے گرتی حکومت کو اپنا کند ھا دینے کیلئے کوئی تیار ہے نہ ہی کوئی ساتھ دیے کر اپنی سیاست ڈبونا چاہتا ہے، کیو نکہ جوحکومت خود کو عوامی خدمت کی دعویدار کے طور پر اب تک پیش کرتی چلی آرہی ہے،
اب ایسے فیصلے کررہی ہے، جو کہ نہ صرف عوام کے لیے مشکلات در مشکلات پیدا کررہے ہیں، بلکہ ملک کے بنیادی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں،اس حکومت کے پاس اہلیت ہے نہ ہی صلاحیت رکھتی ہے کہ در پش بحرانوںسے نجات دلاسکے اور عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی لاسکے ، حکومت ماسوائے نمائشی اعلانات واقدامات کے کچھ کر پارہی ہے نہ ہی کوئی قابل ذکر کار کر دگی دکھا پارہی ہے ، ملک بھر میں صرف اپنی تشہیر ی اشتہاری مہم ہی چلائی جارہی ہے ، اس اشتہاری مہم سے خود کو بہلایا جاسکتا ہے ،لیکن عوام کو بہکایا جاسکتا ہے نہ ہی عوام کی سوچ کو بدلا جاسکتا ہے۔
عوام کی سوچ بدلنے کیلئے عوام کیلئے بھی کچھ کر نا ہو گا ، عوام کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر نا ہو گا ، عوام کے مسائل کا تدارک کر نا ہو گا ،عوام مخالف فیصلوں سے اجتناب کر نا ہو گا اور عوام کے ہی فیصلوں کو مانا ہو گا ، لیکن حکومت ایسا کچھ بھی کر نے کا ارادہ ر کھتی ہے نہ ہی عوام کو اپنی تر جیحات میںشامل کررہی ہے ، یہ آزمائی حکومت اپنی پرانی سیاست ہی دھرائے جارہی ہے ، سیاسی بیان بازی اور پریس ریلیز کی سرگرمیوں سے عوام کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کیے جارہی ہے، جبکہ وقت بدل چکا ہے ،
اب زبانی کلامی بیانیہ چلنے والا ہے نہ ہی ڈ نگ ٹپائو پروگرام کے تحت وقت گزرنے والا ہے ، اس حکومت نے کچھ دیر چلنا ہے تو کچھ کر کے بھی دکھانا ہو گا ،وزیر اعظم شہباز شر یف کے ملک کو بچانے اور عوام کی زند گی میں تبدیلی لانے کے دعوئوں کے سہارے اتنا ہی وقت گزرسکتا ہے ،اس کے بعد حکومت کو خود ہی ہاتھ کھڑے کرکے چلے جانا چاہئے ، لیکن حکومت ساری نا اہلیوں کے باوجود جانے کیلئے تیار نہیں ، لیکن خود کوایک ایسی کھائی کے قریب ضرور لارہی ہے کہ جس میں لڑ کھڑا کر خود ہی گر جائے گی ۔
اس اتحادی حکومت کے پاس زیادہ وقت رہا ہے نہ ہی اس کو سہارا دینے والے مزید سہارا دیے پائیں گے ، اس لیے حکومت کو اپنی بقاء کیلئے خود ہی کچھ کر گزرنا ہو گا، عوام کا سامنا کر نے اور عوام میں جانے سے پہلے ہی عوام کیلئے کچھ کر گزرنا ہو گا،عوام کے مسائل کا تدارک کرناہو گا، عوام کو رلیف کا لالی پاپ دینے کے بجائے حقیقی رلیف دینے کی کوشش کرنا ہو گی ، اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک جس آنارکی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے،اس کے بعد حالات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے اور اس کی بڑی بھاری قیمت ہر ایک کو ہی چکانا پڑے گی ۔