58

دہشت گردی پیچھے بیرونی ہاتھ !

دہشت گردی پیچھے بیرونی ہاتھ !

وطن عزیز میں حالات تیزی سے خراب ہو تے جارہے ہیں،ہر ایک شخص پریشان حال ہے، کسی بھی شخص کی عزت و آبرو محفوظ نہ ہی جان و مال محفوظ دکھائی دیے رہاہے،ایک طرف آئے روز سڑکوں پر اشرافیہ بڑے ظالمانہ طریقے سے عام راہ چلتے لوگوں کو کچل رہی ہے تو دوسری جانب دہشت گرد ہر خاص ع عام کو نشانہ بنائے جارہے ہیں ،گزشتہ روز بھی بلو چستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں نے بے گناہ شہریوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے، لیویز چیک پوسٹوں اور پولیس تھانوں پر حملے کئے گئے ،

ریلوے ٹریک دھماکوں سے اڑایاگیا اور بسوں اور ٹرکوں کو آگ لگائی گئی ،ان واقعات میں عام لوگوں کے ساتھ سیکورٹی فورسز کی بڑی تعداد میں شہادتیں ہوئی ہیں،اس سے ثابت ہورہاہے کہ اس کی منصوبہ بندی میں بیرونی ہاتھ کار فرماہے، اگر چہ دہشت گردی کے ان واقعات کی ذمہ داری تو کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کرلی ہے ، لیکن اس کے اصل منصوبہ ساز بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ہے،

جو کہ پا کستان میں دہشت گردی کی بھر پور معاونت کرتی آرہی ہے۔ہمارا ازلی دشمن بھارت موقع کی تلاش میں رہتا ہے اور اس کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کو جب بھی موقع ملتا ہے ، پا کستان پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کر تی رہتی ہے ، اس وقت بھی ایسا ہی کچھ کیا جارہاہے ، پا کستان سیاسی و معاشی عدم استحکام سے گزررہاہے اور بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کو موقع مل رہا ہے کہ اس عدم استحکام میں مزید اضافہ کرے ،

اس کیلئے مختلف حربے آزمائے جارہے ہیں ، ایک طرف ملک میںسیاسی افر ا تفری پھلائی جارہی ہے تو دوسری جانب دہشت گردانہ کاروائیاں کرائی جارہی ہیں ، دہشت گرد معصوم شہریوں‘ خواتین‘ بچوں اور مسافروں جیسے سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنا کر خوف و ہراس پھلانا چاہتے ہیں،لیکن اس میں ملک دشمن کسی صورت کامیاب ہو سکتے ہیں نہ ہی نسلی بنیادوں پر قتل و غارت گری سے عوام میں نفرت کا بیج بو سکتے ہیں، کیو نکہ عوام جانتے ہیں کہ اس دہشت گردی کے پیچھے کون کار فر ما ہے اور وہ کیا کرناچاہتا ہے؟
اگر چہ اس قسم کی دہشت گردی کی ہر واردات میں پا کستانی عوام کو بہت زیادہ جانی ومالی نقصان اُٹھانا پڑرہا ہے ،تاہم پاکستانی عوام اور سیکورٹی فورسز پر عزم ہیں کہ اس دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ کر کے ہی دم لیں گے،دہشت گردی کے بڑھتے واقعات پاکستانی عوام کے حوصلے پست کر پارہے ہیں نہ ہی اس کے عزم کو متزلزل کر پارہے ہیں ،بلکہ ان واقعات نے پاکستانی عوام کے ذہنوں پر نقش کردیا ہے کہ ریاست کے خلاف کاروائی کر نے والے دہشت گرد ہیںاور ان کو دہشت گرد کی نظر سے ہی دیکھنا چاہئے،

کیو نکہ ان کا کوئی نظر یہ ہے نہ ہی کوئی مقصد ہے ،یہ معصوم لوگوں کا قتل عام کررہے ہیں اور یہ کام پاکستان کے دشمنوں کت ایما پر ہی کر رہے ہیں، اس قماش کے ملک دشمنوں سے ہر ممکن طریقے سے نمٹنا ہو گا، اس کیلئے جہاں آپریشنل اور خفیہ صلاحیتیں بڑھانا ہوں گی ،وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ بلوچستان کے عام عوام کی دلجوئی کی جائے اورانہیں اعتماد میں لیا جائے کہ ریاست اپنے اس حصے کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کس طرح کوشاں ہے اور اس سلسلے میں دہشت گرد عناصر کیا رکاوٹیںپیدا کر رہے ہیں۔
یہ مانا پڑے گا کہ حکومت اپنے ہی لو گوں کا اعتماد حاصل کر نے اور ان کی محرومیاں دور کرنے میں ناکام رہی ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی یہ توبتا رہے ہیں کہ یہ ناراض بلوچوں کا کام نہیں‘ یہ ظلم کرنے والے دہشت گرد فساد پھیلانے کیلئے سب کچھ کررہے ہیں، لیکن اپنی نا اہلیوں اور کو تاہیوں کا ذکر کررہے ہیں نہ ہی بتا پا ر ہے ہیں کہ اب تک اپنے علاقے میں قیام امن کیوں نہیں لا پارہے ہیں ؟

جبکہ عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ و سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہناہے کہ ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو تو بلوچستان جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں، تاہم اس غم کی گھڑیوں میں ریاست اور عوام کو بلوچستان کے شہریوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا، اس دہشت گردی میں عام لوگوں کا کوئی قصور ہے نہ ہی انہیں مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے،ہمیں اپنا نشانہ سیدھا رکھنا ہو گا اور ملک کے مفادات کے خلاف کام کرنے والوں‘ دہشت گردوں‘ تخریب کاروں اور فتنہ گروں پر ہی اپنی توجہ مرکوز کر نا ہو گی،

ورنہ معلات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے ہی چلے جائیں گے۔اس بات کو ایسے ہی کب تک نظر انداز کیا جاتا رہے گا کہ بلو چستان کے عوام عر صہ دراز سے فیصلہ سازی اور ساحل و رسائل پر مکمل اختیار مانگ رہے ہیں، پا کستان سے بلوچستان کا الحاق بھی ان ہی شرائط کے تحت کیا گیاتھا، اس لیے اہل اقتدار کو طاقت کے استعمال کے بجائے اصل معاملات پر توجہ دینی چاہئے اور بلوچ و پشتون قیادت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا نتیجہ خیز حل تلاشش کرنا چاہئے،

تاکہ اندرونی اور بیرونی دشمن ایسی صورت حال سے فائدہ اُٹھا سکیں نہ ہی ناراض لوگوں کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کر سکیں، اگر دہشت گردی کا مکمل سد باب کر نا ہے اور اس میں ملوث بیرونی ہاتھ کا ٹنا ہے تو اس میں وزیر اعظم کی زبانی کلامی ڈیلاگ بازیوں سے کام نہیں چلے گا ،بلکہ ملک کے ہر محروم طبقہ کی محرومی کا ازالہ بھی کر نا ہو گا، بصورت دیگر دہشت گردی کے پیچھے بیرونی ہاتھ کاٹ پائیں گے نہ ہی دہشت گردی کے ناسور کا کبھی خاتمہ کر پائیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں