62

کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں !

کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں !

تحریک انصاف کے رہنمائوں کچھ عرصہ سے خدشات کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیںکہ عمران خان کو فوجی تحویل میں دیا جا سکتا ہے اور ممکنہ طور پر اُن پر آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں کیس چلایا جا سکتا ہے،اس بارے جب ڈی جی آئی ایس پی سے پو چھا گیا تونہوں نے اپنے جواب میں کہا کہ یہ پوچھا جانے والا سوال فرضی ہے اور اس معاملے سے متعلق ہے، جو کہ زیر سماعت ہے، لیکن اس بات پر ضرور روشنی ڈال دی گئی کہ اگر فوجی قانون کے تحت کوئی فرد آرمی ایکٹ کے تابع کسی کو ذاتی یا سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرتا ہے اور اس ضمن میں کوئی ثبوت موجود ہیں تو قانون اپنا راستہ ضرور اختیار کرے گا۔
اس کا مطلب ہے کہ اگر اس معاملے پر فوجی حکام کو ثبوت ملتے ہیں کہ عمران خان نے جنرل فیض حمید کو اپنے ذاتی یا سیاسی فائدے کیلئے استعمال کیا ہے تو عمران خان کو ٹرائل کیلئے فوجی تحویل میں دیا جا سکتا ہے،تاہم گزشتہ روز اپنی پر یس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے عمران خان اور جنرل فیض کے درمیان کسی رابطے پر براہ راست کوئی تبصرہ کیا نہ ہی اس بات کی تصدیق یا تر دید کی ہے کہ عمران خان کو فوجی احکام کے حوالے کیا جاسکتا ہے ،لیکن حکومت کے وزراء ضرور باور کر نے میں لگے ہیں

کہ با نی پی ٹی آئی پر آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں کیس چلایا جائے گا ،وزیر دفاع خواجہ آصف ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ عمران خان کے خلاف ثبوت کی موجودگی میں ہی فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کی بات کی جارہی ہے۔اتحادی حکومت جب سے آئی ہے ،اس کی پہلے دن سے ہی کوشش رہی ہے کہ اپوزیشن کو نہ صرف دیوار سے لگایا جائے ،بلکہ راستے سے ہی ہٹا دیا جائے، اس لیے ہی انتقامی سیاست کو فروغ دیا گیا اور ایک کے بعد ایک مقدمے میں سیاسی مخالفین کو ملوث کیا جاتا رہا ہے

، لیکن حکومت جب اپنے مخالفین کو مائنس کر نے کے ایجنڈے میں ناکام رہی ہے تو کبھی نوں مئی کا سہارا لیا جارہا ہے تو کبھی مقتدرہ کے بیانیہ سے اپنا بیانیہ ملا جارہا ہے ،اس کے پیچھے ایک ہی مقصد رہاہے کہ کسی طرح سے اپنے مخالف کی عوام میں مقبولیت کا خاتمہ کیا جاسکے ،اس کو کسی طرح سیاست سے باہر نکالا جاسکے ، لیکن اس حکومت کی ساری کائوشیں کا ر گار نہیں ہو پارہی ہیں ،ایک طرف عوام سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور سب کو جانتے ہیں تو دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی واضح کر دیا ہے کہ پاکستان آرمی قومی فوج ہے‘اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیںہے ، یہ کسی سیاسی جماعت کی مخالف ہے، نہ کسی ایک کی طرفدار ہے ‘ فوج کا ہر حکومت کے ساتھ پیشہ ورانہ تعلق ہوتا ہے، جو کہ آئین اور قانون میں مناسب طور پر بیان کر دیاگیا ہے اوراس پر ہی فوج عمل پیراں ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سیاست میں فوج کا کوئی آئینی کردار ہے نہ ہی ایسا کوئی کردار ادا کر نا چاہتی ہے ، لیکن اہل سیاست بار بار اسے نہ صرف سیاست میں گھسیٹتے آرہے ہیں ،بلکہ قومی مفاد کی آڑ میں مجبور کر تے چلے آرہے ہیں کہ کوئی سیاسی کرادار ادا کرے ، اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ، ایک طرف اُن سے ہی صرف مذاکرات کی باتیں ہورہی ہے تو دوسری جانب اُن سے ہی سہارے کی توقع رکھی جارہی ہیں ، جبکہ حکومت اپنا بوجھ اُٹھانے کے بجائے خود کو بے اختیار ظاہر کر کے اپنا سارا بوجھ دوسروں پر ہی ڈالے جارہی ہے، اگر اتحادیوں میں حکومت چلانے کی اہلیت ہی نہیں تھی

تو پھر کیا کر نے آئے تھے اور اب کیا کچھ کررہے ہیں ؟یہ آئی ایم ایف کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں اور خود کے بچائو میں آئینی ترامیم لائے جارہے ہیں،یہ حکومت چلا پارہے ہیں نہ ہی ملک وعوام کو بحرانوں سے نکال پارہے ہیں ،یہ بے سہارے دوسروں کے سہارے کی تلاش میں ہی سر گراں ہیں ، یہ نوں مئی کا سہارا لیتے ہیں تو کبھی طاقتور حلقوں کے احتسابی بیانیہ کے پیچھے چھپتے دکھائی دیتے ہیں ، لیکن یہ سب کچھ ایسے ہی زیادہ دیر تک نہیں چلے گا ، انہیں آج نہیں تو کل عوام کے سامنے جانا ہی پڑے گا

اور عوام کی عدالت میں جوابدہ ہو نا ہی پڑے گا۔اس ملک میں جس نے جوکچھ بھی کیا ہے ،اس کیلئے جو ابدہ ہو نا چاہئے ، بلا امتیاز سب کا ہی احتساب ہو نا چاہئے ، لیکن احتساب کون کر ے گا اور اس احتساب کی شفافیت کی کون گارنٹی دیے گا ؟ جبکہ ہر ادارے پر ہی سوالیہ نشان ہیں اور ہر ادارے میں ہی مداخلت ہو نے کے الزامات ہیں ، اگر اس کے باجوداحتساب کر کے ہی آگے بڑھنے کی ضد ہے تو پھر کسی ایک کا نہیں ،سب کا ہی ایک بار احتساب ہو جانا چاہئے،کیو نکہ یہاں پر کوئی ایک بھی دودھ کا دھلا ہے

نہ ہی کوئی مقدس گائے ہے ، اس حمام میں سارے ہی ننگے سارے ہی گندے ہیں اور ہر ایک کے دوسرے کے پاس ثبوت بھی مو جود ہیں ،اگر انصاف کے ترازو کے پلڑے برابر رکھے جائیں تو نہ صرف انصاف ہو جائے گا ،بلکہ انصاف ہوتا ہوا دکھائی بھی دیے گا، لیکن اس کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی کہ کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں رہے گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں