33

سیاست میں مائنس نہیں چلے گا !

سیاست میں مائنس نہیں چلے گا !

تحریک انصاف کابہت دیر بعد ایک جلسہ ہو ہی گیا ہے، اس جلسے سے تحریک انصاف اور حکومت نے اپنے اپنے احداف حاصل کر لیے ہیں ، تحریک انصاف اپنی طاقت کا ایک باربھر پور مظاہرہ کر نا چاہتی تھی ،جبکہ حکومت بھی دیکھنا چاہتی تھی کہ تحریک انصاف میں ساری سختیاں برداشت کرتے ہوئے کتنا دم خم باقی بچا ہے ، لیکن اس جلسے میں تحریک انصاف نے انتظامیہ کے ساتھ طے شدہ متعدد شرائط کی جو خلاف ورزی کی ہے،اس کے بعد آئندہ کسی جلسے کی اجازت دینے سے انکار کیا جاسکتا ہے،

یوں تحریک انصاف نے ایک بار پھر اپنے آئندہ جلسوں کیلئے راہ بند کرلی ہے،لیکن سیاست میں کوئی مائنس فار مولازیادہ دیرتک چلنے والا نہیں ہے۔اس ملک میں اہل سیاست اظہارے رائے کی آزادی کی باتیں تو بہت کرتے رہتے ہیں، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ہر کوئی آزادی اظہار پر ہی پا بندیاں لگاتا چلا آرہا ہے ، اپنے مخالف کو دباتا چلا آرہا ہے ،اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ، اتحادی ایک طرف جمہوریت میں آزادی اظہار کے دعوئے کرتے نہیں تھکتے تو دوسری جانب اپنے مخالفین پر سب سے زیادہ پا بندیاں لگائے جارہے ہیں ، آئینی ترامیم لائے جارہے ہیں ، اپوزیشن کو دیوار سے لگانے

اور راستے سے ہٹانے کیلئے قانون سازی کیے جارہے ہیں ، یہ سارے کام عوام کی بھلائی کے بجائے اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے کیے جارہے ہیں ، لیکن اس طرح زیادہ دیر تک عوام کی آواز کو دبایا جاسکتا ہے نہ ہی عوام مخالف اقتدار زیادہ دیر تک چلا یا جاسکتا ہے۔یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ ایک نام نہاد جمہوری حکومت ہی جمہور کی آواز دبانے میں لگی ہوئی ہے ،عوام کو دیوار سے لگانے میں لگی ہوئی ہے، اپوزیشن کو تنقید کر نے کا حق دیا جارہا ہے نہ ہی سیاست کر نے کی اجازت دی جارہی ہے

،اپوزیشن کو مسلسل انتقامی سیاست کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،اپوزیشن رہنمائوں اور کارکنان کو جعلی مقدمات میں پا بند سلاسل کیا جارہا ہے ،ایک کے بعد ایک نئے مقدمے میں دھرا جارہا ہے ، جلسے جلوس کر نے سے رو کا جارہا ہے ،یہ کیسی جمہوریت اور کیسی سیاست ہے کہ اپنے سیاسی مخالف سے سیاست کر نے کا حق ہی چھینا جارہا ہے اور اس کے بعد کہا جارہا ہے کہ سیاسی جماعت کو سیاسی انداز اپنانا چاہئے

، تشددت کاراستہ اختیار نہیں کر نا چاہئے ،جبکہ اُن پر ہی تشدت کر کے جوابی تشدت پر اُکسایا جارہا ہے ، گز شتہ رات بھی تحریک انصاف کے جلسے میں ایسا ہی کچھ کیا گیا ہے ، اس سے حالات بہتر ہوں گے نہ ہی عدم استحکام سے نجات ملے گی ، بلکہ ملک میں مزید انتشار ہی بھڑتا چلا جائے گا ۔
اس ملک کا استحکام سیاسی استحکام سے جڑا ہے، جوکہ سیاسی مخالف کو راستے سے ہٹانے کے حر بوں سے کبھی نہیں آئے گا ،اگر ملک میں استحکام لانا ہے تو ایک دوسرے کو مانا پڑے گا ، عوام کو فیصلہ سازی میں نہ صرف شامل کر ناپڑے گا ،بلکہ عوام کے ہی فیصلے کو مانا بھی پڑے گا ، کیو نکہ عوام سے بہتر کوئی فیصلہ کر سکتا ہے نہ ہی عوام مخالف فیصلوں کے ساتھ چلا جاسکتا ہے ، اس کے باوجود ایک ضد ہے

کہ آزمائے فار مولے کو ہی آزمانا ہے اور آزمائے لوگوں کے ساتھ ہی ملک چلانا ہے ، اس ملک کو چلانا اور آگے لے جانا ،آزمائے ہوئے کی بس کی بات نہیں رہی ہے ، یہ جتنے مرضی دعوئے کر لیں کہ ملک کو ڈیفالٹ ہو نے سے بچالیا ہے اور عوام کو بھی بد حالی سے نکالیں گے ، لیکن ایسا کچھ بھی ہو نے والا نہیں ہے ، کیو نکہ ان کے پاس اہلیت ہے نہ ہی صلا حیت رکھتے ہیں ، اگر ان میں صلاحیت ہوتی تو انہیں کبھی عوام مسترد کرتے نہ ہی اپنی حمایت سے محروم کرتے ، یہ جتنے مرضی اپنے سیاسی مخالف پر الزامات لگاتے رہیں جتنے مر ضی نمائشی اعلانات و اقدامات کرتے رہیں ،

عوام بہلنے والے ہیں نہ ہی کسی بہکائوئے میں آنے والے ہیں ،عوام آزمائے حکمرانوں سے نجات چاہتے ہیں اور جب تک عوام کی خواہش کا احترام نہیں کیا جائے گا ، ساری پا بندیوں کے باوجود عوام سڑکوں پر سراپہ احتجاج ہی رہیں گے۔
یہ بات حکومتی اتحادی بخوبی جانتے ہیں اور اس سے ان کے سر پرست بھی غافل نہیں ہیں ، اس کے باوجود سیاسی عدم استحکام کو ہی مزید ہوا دی جارہی ہے اور ملک کو انتشار کی جانب ہی دھکیلا جارہا ہے ،اس کا فائدہ غیر سیاسی قوتیں ہی اُٹھائیں گی اور وہ اپنے تائیں اُٹھا ئے جارہی ہیں ،سیاسی قوتوں کو بے اختیار کر کے اپنے لیے استعمال کیے جارہی ہیں ، ایوان پار لیمان سے لے کر ار کان پار لیمان تک اُن کے ہی اشاروں پر چل رہے ہیں اور انہیں کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے سمجھ رہے ہیں کہ کا میاب ہو جائیں گے

اور اپنے ساتھ اپنے اقتدار کو بھی بچا جائیں گے ، جبکہ ایسا کچھ بھی ہو نے والا نہیں ہے،یہ سیاست میںمائنس فار مولا نہیں چلے گا، اس جانب مولانا فضل الر حمن توجہ دلارہے ہیں اور اس کی محمود اچکزئی بھی دھائی دیے رہے ہیں کہ وقت سے پہلے سنبھل جائیں اور مل بیٹھ کر اپنے معاملات سیاسی انداز میں سلجھالیں ، ورنہ بہت جلد سارے معاملات ہا تھ سے نکل جائیں گے اور سارے ہی خالی ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں