117

ہمارے پوروج آدم و نوح علیہ السلام والی سرزمین ھند میں، عزت و وقار سے رہنا کیا ممکن ہے؟

ہمارے پوروج آدم و نوح علیہ السلام والی سرزمین ھند میں، عزت و وقار سے رہنا کیا ممکن ہے؟

۔ نقاش نائطی
۔ 966562677707+

المحترم سمیع اللہ خان کی تحریر”وقف قانون پر ہندوؤں سے رائے لینا ایک ہندوتوادی چال ہے” کی تائید میں احقر نے کچھ اپنا تفکر پیش کیا ہےہم مسلمان ہیں ہم کچھ بھی کریں اور اس کے نتائج کچھ،آئیں نہ آئیں لیکن “بادشاہ سلامت حاضر ہو” والے ہمارے نقاروں سے، دشمنوں کے ایوانوں میں کھلبلی نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے؟ ہم اپنی مدافعتی سرگرمیوں میں بھی،شور شرابہ مچانے ہی میں مست ہیں اور دشمن کس حکمت عملی والی خموشی کے ساتھ قانون و عدلیہ کے ریٹائرڈ تجربہ کارججز اور کارندوں کے ساتھ ہم پر جارحانہ حملے، وہ بھی ہم جیسے تغافل عارفانہ والے نہیں، بالکہ قانونی شکنجوں میں جکڑےہوئے، کہ پہلے سے سنگھی سازشی ظلم و ستم سے نالاں ہم مسلمان، سنبھل بھی نہ پائیں۔ اور بعد میں، ‘وقت سم قاتل دشمنان اسلام’، فقط تلملاتے ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں۔

سب سے اہم بات، مسلمانوں کی وقف اراضی پر قبضہ کی آراء، مسلم دشمن ھندوؤں سے لینا ہی، یہ سازشی ذہن درشاتا ہے کہ 12 تا 15 فیصد آبادی والے ہم مسلمان 70 تا 80 فیصد والے منجملہ ھندوؤں کے تقابل میں، پہلے سے شکشت خوردہ ہوجائیں۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے ہم مسلمانوں کی 5 سو سالہ قانونی ملکیت والی زمین، قانون و عدلیہ ملک و وطن کو یرغمال بنائے، قاتل بابری مسجدٹولے ہی کے حوالے کئے، اس پر تعمیر کئے گئے شاندار رام مندر ٹرسٹ میں،برائے نام ہی صحیح ،کیا مسلمانوں کی نمائندگی رکھی گئی ہے؟ جبکہ کل بھی وہ 5 سالہ قانونی ملکیت والی رام مندر تعمیر زمین ہم مسلمانوں کی تھی اور تا قیامت ہم مسلمانوں ہی کی رہے گی۔ ھندوؤں کی مسلم مناترتی تنظیم آرایس ایس سربراہ، انتخابی عمل میں، کیا

ہم مسلمانوں کا ووٹ لیا جاتا ہے؟ اگر ھندوؤں کے ذاتی معاملات میں مسلمانوں کی حصہ داری کی بات ہی بے تکی لگتی ہے تو، مسلم مجوزہ ترقیات کی خاطر، اپنے کمائی پیسوں سے، خریدی ذاتی جائیدادیں، جو اپنے اللہ کی رضا کے لئے، ہم مسلمانوں کے اباء و اجداد کی وقف کی گئی ہیں اس وقف انتظامیہ میں، مسلم دشمن ھندوؤں کی انتظامی امور شراکت داری کی بات ہی،نہ صرف فضول ہے بلکہ یہ دشمن کی سازشانہ سوچ کی غماز ہے۔ ہم نے شروع ہی میں لکھا تھا کہ ایسی رائے شماری فقط ناٹک و تماشہ ہے،

انکے پہلے سے طے شدہ ڈکٹیٹرانہ فیصلوں کو جمہوریتی اقدام لبادے میں لپیٹے، ہم مسلمانوں پر زبردستی نفاظ کے لئے۔ کیا ہم نے 5 سو سالہ تمام تر مسلم قانونی ملکیت وآلے بابری مسجداراضی معاملے میں، عدلیہ عالیہ کے فیصلہ میں، ہم پر ہوئی ناانصافی سے سبق نہیں لیا ہے؟

حرب و جنگ کا ایک ہی اوصول ہے جب ایک فریق دوسرے کے مقابلے انتہائی کمزور تر رہتا یے تو اسکے سیدھے اخلاق پرور لڑائی میں جیت ناممکن ہوجاتی ہے۔ ایسے میں، چھپ کر دشمن پر وار کرنے کی،غیر اخلاقی حکمت عملی آپنائی جاتی ہے، اور حرب و جنگ میں،ہراقسام کی پینترے بازی سے اوپر اٹھ کر، اہنے بچاؤ ہی کی خاطر دشمن پر حملے میں پہل، (اٹیک اس دی بیسٹ وے آف ڈیفنس) اوصول مطابق لڑی جاتی ہے۔ یہ سب حربی پینترے بازی ہمارے اسلاف کے آزمودہ نسخے ہیں ۔

بس ہمیں اپنے اسلاف کے جہادی جذبات اپنے میں باقی رکھنا ہے اور صرف مدافعتی جنگ لڑتے ہوئے،پورے آداب و اقدار کے ساتھ، اسی سناتن دھرمی آسمانی مذاہب والی سرزمین گنگا جمنی سیکیولر مذہبی اثاث کو باقی رکھے، اپنے یورے مذہبی وقار و اقدار کے ساتھ عزت سے جینے کی جنگ کو لڑنا اور جیتنا ہے۔ومالتوفئق الا باللہ۔

وقف قانون پر ہندوؤں سے رائے لینا ایک ہندوتوادی چال ہے

✍️: سمیع اللہ خان

اس ویڈیو سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اوقاف کے مسئلے میں ای میل کے ذریعے رائے صرف مسلمانوں سے نہیں بلکہ ہندوؤں سے بھی لی جارہی ہے ۔
یہ بات بورڈ کے ذمہ داران کو اگر پہلے سے معلوم تھی تو انہیں جے پی سی کو ای میل کرنے والی یہ مہم چلانی ہی نہیں تھی، بلکہ حکومت کی اس واضح ترین ہندوتوا چال کو ناکام بناتے ہوئے ایک بھی ای میل نہیں کرانا چاہیے تھا،
یا پارلیمانی کمیٹی سے پہلے ہی سوال کرکے جواب لینا چاہیے تھا کہ جب وقف کا معاملہ صرف اور صرف مسلمانوں سے متعلق ہے تو اس میں ہندوؤں کی رائے لینے کا کیا مطلب ہے؟ اس سے تو وقف پر بنی ہوئی پارلیمانی کمیٹی کا پہلا ہی اقدام متعصبانہ ثابت ہوا۔
میں اس معاملے میں اب تک کہنا نہیں چاہتا تھا اور اسی لیے میں نے بھی پرسنل لا بورڈ کی بات آگے بڑھاتے ہوئے ای۔میل کرنے کی اپیل کی تھی
لیکن یہ بات مجھے بالکل بھی سمجھ میں نہیں آئی کہ بورڈ کے لوگوں نے اس مہم کو ایسے کیوں چلایا جیسے ای۔میل کرنے سے وقف کےخلاف قانون رک جائےگا، جبکہ تکنیکی اعتبار سے ایسا نہیں ہے یہ صرف ایک قانونی مرحلہ ہے کہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو متعلقہ قانون پر متعلقہ عوام سے رائے بھی لینی ہوتی ہے جیسے نئی تعلیمی پالیسی پر ایجوکیشن منسٹری کی کمیٹی نے رائے طلب کی تھی۔
لیکن وقف والے مسئلے میں پارلیمانی کمیٹی کو رائے بھیجنے کا معاملہ ایسے پیش کردیا گیا ہے کہ عام مسلمانوں کو یہ بتایا جارہا ہے کہ اگر زیادہ ای۔میل کروگے تو قانون رک جائے گا عام لوگ ایک جنون کی طرح اس مہم پر کام کررہے ہیں، حالانکہ ایسا ہے ہی نہیں کہ ای۔میل بھیجنے سے قانون رک جائےگا۔ یہ بس ایک اسٹیپ ہے، جسے کرنا چاہیے لیکن اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرنا سمجھ سے بالاتر ہے ،
اور پھر وہی بات آگئی کہ اگر یہ معاملہ وقف کا ہے تو اس کا تعلق صرف اور صرف مسلمانوں سے ہے لہذا اس معاملے میں رائے بھی صرف اور صرف مسلمانوں سے لینی چاہیے تھی لیکن ہندوؤں سے بھی رائے لی جارہی ہے اگر یہ بات پہلے سے معلوم تھی تو پارلیمانی کمیٹی کی ایسی تجویز پر بورڈ کو ہرگز عمل نہیں کرنا چاہیے تھا اس پر پہلے ہی اعتراض درج کرانا چاہیے تھا ۔
مجھے نہیں معلوم کہ بورڈ کے ذمہ داران کس طرح اپنی پالیسیوں کو وضع کررہے ہیں اور کن لوگوں سے مشورہ کرتے ہیں لیکن بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بورڈ کا رخ بالکل بھی قائدانہ بصیرت و بے باکی کی ترجمانی نہیں کرتا، بہت افسوس ہوتا ہے کہ آج بورڈ کو سیکولر ہندوؤں کے پاس جا جا کر وہی پریکٹس دوہرانے کی نوبت آگئی ہے جو انہیں تین طلاق معاملے میں کرنی پڑی تھی حالانکہ نتیجہ ہمارے خلاف ہی آیا تھا، تو آخر کب تک ان سیکولر ہندو سیاستدانوں کے دروازوں پر دستک دیتے رہیں گے ؟

کیا کسانوں کو بھی آپ نے ایسے ہی بھٹکتے دیکھا تھا؟؟؟وقف کےخلاف قانون ہو یا ماب لنچنگ ، یا بلڈوزر ہو یا ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہندوتوادی حملے ان سب کا حل صرف اور صرف سڑک پر اتر کر حکومت کے ڈنڈوں اور جیلوں کا سامنا کرنا ہے جب تک مسلمانوں کی مرکزی قیادت ظالموں سے لڑائی لڑنے اور قربانی دینے کا فیصلہ نہیں لیتی تب تک کچھ نہیں ہونے والا، اور اگر صرف وقف کی جائیداد بچانے کے لیے تڑپیں گے لیکن ناموسِ رسالت ، بلڈوزر اور ماب لنچنگ کے خلاف بھی ایسی ہی حساسیت اور تڑپ کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تو اللہ کی مدد سے محروم ہی رہیں گے اور ہندوتوا شیطان جری ہوتے جائیں گے !۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں