اس پر انگلیاں تو اُٹھیں گی !
اتحادی حکومت ایک طرف آئینی ترمیم کر نے کیلئے اپنا پورا زور لگارہی ہے تو دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ کے تحت مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا مطالبہ کر دیاہے ،حکومت عددی اکثریت حاصل کر نے کیلئے کوشاں ہے اور ہر حربہ آزمارہی ہے کہ جس سے دوتہائی اکثریت حاصل کر نے میں کا میاب ہو جائے ،یہ سب کچھ عوام کی بھلائی کے نام پر کیا جارہا ہے ، جبکہ اس میں عوام کی بھلائی کہیں دکھائی نہیں دیے رہی ہے ،
عوام بے چارے مہنگائی ،بے روز گاری کے بوجھ تلے مر رہے ہیں اور حکومت دعوئیدار ہے کہ مہنگائی کم ہورہی ہے ،جبکہ مہنگائی بڑھ رہی ہے تو اس پر انگلیاں تو اُ ٹھیں گی ؟
اگر دیکھاجائے تو عوام کو آئینی ترامیم سے کوئی سروکار ہے نہ ہی مخصوص نشستوں میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں ، عوام کو دووقت کی روٹی کے حصول کے لالے پڑے ہیں اور حکومت عوام کے درینہ مسائل کا تدارک کرنے کے بجائے ایک کے بعد ایک نئے معاملے میں الجھائے جارہی ہے ، عوام کی توجہ اپنے معاملات سے ہٹائے جارہی ہے ، لیکن عوام کا فوکس اپنے مسائل کے تدار ک کی جانب ہے اور عوام چاہتے ہیں
کہ اُن کی مشکلات کا آزالہ کیا جائے ،جبکہ حکومت عوام کے بجائے کسی دوسرے ہی ایجنڈے کی تکمیل میں سر گرداں ہے ، حکومت کے ایجنڈے پر کبھی عوام رہے ہیں نہ ہی آئندہ دکھائی دیے رہے ہیں،عوام کو محض دلفریب بیانیہ سے ہی بہلایا جارہا ہے اور یقین دلایا جارہا ہے کہ مہنگائی کم ہورہی ہے اور بڑی تیزی سے خو شحالی لائی جارہی ہے۔اگر ادارہ شماریات کے اعدا و شمارہ دیکھے جائیںتو اس کے مطابق مہنگائی کی مجموعی شرح 14.36 فی صد ہو گئی ہے، بجلی فی یونٹ مزید مہنگی کر دی گئی ہے ،جبکہ روز مرہ اشیاء ضروریہ کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں، اس پر سب سے تکلیف دہ امر یہ ہے کہ چو بیس کڑوڑ لوگوں کے ملک میں حکومت چلانے والے کوئی اثر لے رہے ہیں،
نہ ہی عوام کی حالت زار پر رحم کھارہے ہیں،کیو نکہ امراء اشرافیہ ،حکمران طبقہ اورفیصلہ سازوں کو ملک میں بڑھتی مہنگائی و بے روزگاری سے کوئی فرق ہی نہیں پڑرہا ہے ، اس لیے غریب بھوکا سوئے یا اس کا بچہ اسکول جائے نہ جائے، بیمار ہونے پر علاج ہو نہ ہو، کسی کو کوئی پرواہ ہے نہ ہی کوئی ا حساس کررہا ہے ،کیو نکہ ان کی تر جیحات میں کہیں عوام ہیں نہ ہی ان کے بچے کبھی رہے ہیں۔
اگر حکمران طبقے کو زرا بر براعام عوام کی فکر ہوتی تو آج ملک میں دو کروڑ باسٹھ لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر نہ ہوتے،حکومت خود تسلیم کررہی ہے کہ پاکستان میں دو کروڑ باسٹھ لاکھ سے زائد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں یا اسکولوں سے باہر ہیں، جبکہ کتنے ہی نوجوان بچے تعلیم حاصل کر نے کے بعد بے روز گار دہکے کھارہے ہیں، لیکن ان کیلئے کبھی سیاست دانوں نے آئینی پیکیج کی طرح دوڑ بھاگ کی ہے نہ ہی کوئی پلان بنایا ہے، اس پر کل بھی سیاست چمکائی جاتی رہی ہے اور آج بھی چمکائی جارہی ہے ، تعلیم یافتہ بچوں کو روز گار دینے کے بجائے قرض دینے کی باتیں کی جاتی ہیں
، لیپ ٹاپ اور موٹر سائیکل دینے کی سکیم لائی جاتی ہیں ، تاکہ اس کا اپنے ہی حواریوں کو بھر پور فائدہ پہنچے اوروہ اپنی تجوریاں بھری جائیں، اس ملک کے حکمران عوام کے نام پر خود ہی سب کچھ کھائے جارہے ہیں ، جبکہ عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی آرہی ہے نہ ہی عوام کی حالت زار بدل رہی ہے ، اس کے باوجود حکمران عوئیدار ہیں کہ عوام کی زند گی میں خو شحالی لائیں گے،جبکہ عوام کے حالات بد تر سے بدتر ہی ہوتے جارہے ہیں ۔
یہ بات کون نہیں جانتا ہے کہ اس وقت حالات انتہائی ناساز گار ہیں ، لیکن حکومت حالات ساز گار بنانے کے بجائے مزید ناساز بنانے میں ہی لگی ہوئی ہے ، ایک طرف آئنی ترامیم پر زور ہے تو دوسری جانب سیاسی محاز آرائی کا شور ہے ، اپوزیشن کو بدتر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، اس کو دیوار سے لگایا جارہا ہے ،اپنے راستے سے ہٹایا جارہا ہے ،اس کیلئے ہر حربہ آزمایا جارہا ہے،اس کے خلاف اپوزیشن سر اپہ احتجاج ہے تو اس احتجاج کو بھی بزور طاقت کچلا جارہا ہے ، اس سے انتشار بڑھ رہا ہے
اور عام لوگوں کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو رہا ہے ،لیکن حکومت کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہے نہ ہی عوام کے بدلتے رویئے کا احساس ہوپا رہا ہے ،اس حکومت سے عوام بے زار ہوتے جارہے ہیں اور اس سے چھٹکاراہ چاہتے ہیں ، حکومت مختلف حربوں سے دوتہائی اکثریت حاصل کر لے یا جتنی مرضی آئینی ترامیم کر لے ، عوام کی حمایت حاصل کر پائے گی نہ ہی عوام کی حمایت کے بغیر زیادہ دیر تک چل پائے گی ، اس لیے حکومت کو چاہئے کہ عوام مخالف ایجنڈے پر کام کر نے کے بجائے عوامی بھلائی کے ایجنڈے پر کام کر ے ،بصورت دیگر اس پر انگلیاں بھی اُٹھیں گی اوراس کے خلاف احتجاج بھی ہو گا ، ا سے کوئی روک پائے گانہ ہی اس سے بچ کر کہیں بھاگ پائے گا ۔