Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

حکومت اور اپوزیشن مکالمہ کرے!

چور دروازے سے چوریاں ہوتی رہیںگی!

حکومت اور اپوزیشن مکالمہ کرے!

سیاست میںسیاسی جلسے ہی کارکنان کو بیداراورمتحرک رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،اس سوچ کے تحت ہی تحریک انصاف جلسے کررہی ہے،گزشتہ اسلام میں جلسہ کیا گیااور اس کے بعد لاہور میں جلسہ ہوا ہے،یہ جلسے کا میاب رہے کہ نہیں ، اس سے قطع نظرتحریک انصاف نے ساری پا بندیوں کے باوجود ثابت کر کے دکھا دیا ہے کہ حالات کیسے بھی رہیں ، تحریک انصاف نہ صرف ایک بڑی تعداد میں کار کنان لاسکتی ہے ،بلکہ ایک کے بعد ایک جلسہ کا میاب کر کے دکھا بھی سکتی ہے ، لیکن اس کے باوجود اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتی ہے کہ جس کیلئے ساری جدو جہد کی جارہی ہے ؟
اگر دیکھا جائے تو قیادت کے بغیر سیاسی کا ر کنان کو متحرک رکھنا اور جلسے کر نا آسان کام نہیں ہے، لیکن یہ سب کچھ بانی تحریک انصاف کی مقبولیت کے باعث ہورہا ہے ، حکو مت کے وزارا ء دعوئیدار ہیں کہ تحریک انصاف نہ صرف اپنی مقبولیت کھو چکی ہے ،بلکہ اسے عوام نے مسترد بھی کر دیا ہے ، اگر ایسا ہی ہے تو پھر تحریک انصاف کے جلسے کے اعلان کے ساتھ ہی حکو مت کے ہاتھ پائوں کیوں پھول جاتے ہیں؟

حکومت پا بندیاں اور گرفتاریاں کیوں کر نے لگتی ہے ، صبح سے لے کر شام تک میڈیا پر بیٹھ کر تنقید کے نشتر کیوں چلائے جاتے ہیں ؟ حکومت مانے نہ مانے ،مگر سارے ہی جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کی مقبولیت میں نہ صرف مزید اضافہ ہورہا ہے ، بلکہ حکومت کے خلاف عوام کی نفرت بھی مزیدبھڑتی ہی جارہی ہے ،لیکن اس کا بھر پور فائدہ اُٹھا نے میں تحریک انصاف ناکام دکھائی دیتی ہے۔
تحریک انصاف کو اپنی سیاسی حکمت عملی کو بدلنا ہو گا ، یہ جلسے ،جلوس کی سیاست کے بجائے کوئی دوسرا ہی راستہ اختیار کر نا ہو گا،کیو نکہ مو جودہ حالات میں جلسوں کی سیاست مسائل کو مزید بگاڑ تو سکتی ہے‘ انہیں حل کرنے میں کوئی مدد فراہم نہیں کر سکتی ہے، اسلام آباد کے جلسے کے نتیجے میں جو کچھ ہوا اور اب لاہور کے جلسے کے بعد جو کچھ ہورہا ہے ، اس سے ملکی سیاست غیر معمولی تنائومیں ہی آ رہی ہے،جبکہ آج کے حالات اس قسم کی مہم جوئی سے بچنے کی تجویز دیتے ہیں،

سیاست میں جذبات کی اہمیت اپنی جگہ، مگر سیاسی جذبات کے پیچھے ایک دماغ بھی کارفرما ہونا چاہیے، جوکہ بد لتے حالات و واقعات کے تقاضوں کی سمجھ رکھتا ہو اور سیاسی فیصلے اس کے ہی تابع رہیں، آج کے حالات جذبات کے بجائے سیاسی ہو شمندی کا زیادہ تقاضا کرتے ہیںاور اس میں اپوزیشن کے ساتھ حکومت کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کر نا ہو گا ۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی عوام کی باتیں کرتے ہیں ، لیکن عوام کے مسائل کے تدارک کیلئے کچھ بھی نہیں کررہے ہیں ، حکومت قانون سازی سے لے کر آئینی ترامیم تک عوام کے نام پر کررہی ہے ، جبکہ اپوزیشن عوام کوآزادی دلانے اور اس کا حق رائے دہی دلانے کی جدو جہد کر نے کی دعوئیدار ہے ، لیکن آج کے دور میں عام آدمی کے مسائل کچھ اور ہی ہیں،عام لوگ معاشی مسائل اور حالات کی بے یقینی میں الجھے ہیں اوراس سے نجات حاصل کر نا چاہتے ہیں، ان حالات میں عوام سے توقع رکھنا کہ انہیں سیاسی بیان بازی سے گرمایایابھڑکایا جاسکتا ہے اور کوئی انقلاب لایا جاسکتا ہے ،

ایسا کچھ بھی ممکن ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے، کیو نکہ عوام جب دیکھتے ہیں کہ حکومت اپنے مفاد میں سب کچھ کر گزررہی ہے اور اپوزیشن کے سیاسی جلسوں میں ان کے مسائل مرکزی موضوع ہی نہیں ہیںتو وہ مزید مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے مقاصد اور عوام کے مقاصد میں بڑا واضح فرق دکھائی دیے رہا ہے ،حکومت کا مقصد اپنا اقتدار بچانا اور اپوزیشن کا مقصد احتجاج کر نا ہی رہ گیا ہے ،اس میں عوام کہیں دکھائی ہی نہیں دیے رہے ہیں، عوام بڑھتی مہنگائی ،بے روز گاری کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، اس کے باوجود حکومت اور اپوزیشن توقع رکھتے ہیں کہ عوام ان کا ساتھ دیں گے اور کوئی انقلاب لائیں گے

تو ایسا کچھ بھی ہو نے والا نہیں ہے ،ان حالات میں بہتر سیاسی حکمت عملی ایک ہی ہو سکتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں مکالمہ کریں اور اس کا بنیادی موضوع عوامی مفاد اور ملکی مسائل ہو نا چاہئے،یہ سیاسی جماعتیں جو کہ عوامی جذبات کی جانکاری کا دعویٰ رکھتی ہیں، فی زمانہ ملک کے اصل مسائل سے کوسوں دور سطحی نوعیت کے مسائل میں پھنسی ہوئی ہیں،سیاسی حلقوں میں مہنگائی اور ملک کے معاشی مسائل کی بات ہی کہیں نہیں ہو رہی ہے ،اس وقت انتہائی ضروری ہے

کہ اہل سیاست اپنی سیاسی ترجیحات پر نظر ثانی کریں اور سیاسی انتشار کو بڑھاوا دینے کے بجائے اسے مل بیٹھ کر کم کرنے کی کوشش کریں،اہل سیاست کو اردگرد کے ممالک سے ہی کچھ سیکھنا اور سمجھ لینا چاہیے، اگر اہل سیاست نے اپنی روش نہ بدلی اور ایسے ہی محاذ آرائی جاری رکھی تو پھر کوئی تیسرا ہی سارے معاملات سنبھال لے گا ، اس کے قدموں کی آہٹ بڑے قریب سے سنائی دیے رہی ہے ۔

Exit mobile version