66

آئینی عدالت مجبوری ضروری !

آئینی عدالت مجبوری ضروری !

ملک میں ایک طرف بڑھتی مہنگائی ،بے روز گاری اور بے یقینی کا زور ہے تو دوسری جانب آئینی ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت بنانے کا شور ہے ، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہناہے کہ آئینی ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت بنا کر ہی رہیں گے، کیو نکہ وفاقی آئینی عدالت بنانا انتہائی ضروری اور مجبوری ہے، تا کہ عوام کو انصاف مل سکے،جبکہ تحریک انصاف کا کہنا ہے

کہ یہ سب کچھ عوام انصاف مہیا کر نے کیلئے نہیں ، بلکہ اپنے سیاسی مخالف کو راستے سے ہٹانے اور اعلی عدلیہ کو بے اثر کرنے کیلئے کیا جارہا ہے،اس آئینی ترمیم کے بعد ججز آزادانہ فیصلے کر پائیں گے نہ ہی عوام کو انصاف دیے پائیں گے۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ اتحادی حکومت جب سے آئی ہے ، ایک طرف آئینی ترامیم لانے پر زور لگارہی ہے تو دوسری جانب صدارتی آرڈینس لائے جارہی ہے ، حکومت کا بس نہیں چل رہا ہے کہ اصلاحاتی ایجنڈے کے نام پر سب کچھ ہی تبدیل کرکے اپنے راستے میں آنے والی تمام روکاٹیں دور کر لے،آزاد اداروں کو بھی اپنے تابع کر لے ، اس کائوش پر میثاق جمہوریت کا غلاف چڑھا کر اپنے حصول مفاد کو چھپایا جارہا ہے

اور عوام کو انصاف مہیا کر نے کی آڑ میں اسے مجبوری ضروری بنا کر بتایا جارہا ہے ،مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی بار ہا اقتدار میں رہے ،انہیں اپنے ادوارِ اقتدار میں میثاق جمہوریت کی یاد آئی نہ ہی آئینی عدالت کے قیام کی مجبوری ضروری محسوس ہوئی ہے ، لیکن ان دنوں مجوزہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے ساتھ آئینی عدالت کا غلغلہ سنائی دیے رہاہے‘مگر اس مجوزہ آئینی ترمیم کے دیگر مندرجات کی طرح مفروضہ آئینی عدالت کی ہیئت‘ اختیارات اور نوعیت کے بارے کچھ بھی واضح نہیں ہے ،اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ اس مجبوری ضروری کی دال میں کچھ کالا نہیں ،بلکہ ساری دال ہی کالی ہے ۔
اس لیے ہی عوام سے سب کچھ چھپایا جارہا ہے اور ارکان پار لیمان کو بھی کچھ نہیں بتایا جارہا ہے ،اس حوالے سے اب تک جو کچھ سامنے آیا ہے ، اس میں ہر ایک حکومت کی بد نیتی نظر آرہی ہے اور ہر ایک کا خیال ہے کہ حکو مت اسے اپنے مفاد کیلئے استعمال کر نا چاہتی ہے اور اعلی عدلیہ کو اپنی دست رست میں لانا چاہتی ہے ،اس لیے ہی آئینی ترامیم کیلئے پورا زور لگایا جارہا ہے ، آئینی عدالتی نظام کے قیام کو مجبوری ضروری بتا یا جارہاہے ، لیکن اس قسم کے متوازی آئینی عدالتی نظام کا قیام‘ اور جیسا کہ خیال کیا جارہا ہے‘

اسے سپریم کورٹ آف پاکستان کے متوازی درجہ دینا کیا نتائج دے گا‘ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس پر حکومت کی رائے تو سب کے سامنے ہے، مگراس حوالے سے قانونی حلقوں میں جو تشویش پائی جارہی ہے، اس کو بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے ،اس اہم معاملے پر کوئی قدم اٹھانے سے قبل ہر پہلو پر پوری طرح غور و فکر کرناچاہئے اور اتفاق رائے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر نا چاہئے ، آئینی عدالت کا مقصد کسی طورپر سپریم کورٹ کے اختیارات تقسیم کر نا نہیں ہو نا چاہئے، اس طرح سپریم کورٹ کی اتھارٹی پر تو ضرب لگے گی، یہ سارے عدالتی ڈھانچے کیلئے بھی تباہ کن ہو سکتا ہے؟
اس ملک میں معاملہ اصلاحات کا نہیں ،اپنے حصول مفادات کا ہے لیکن اصلاحات کے نام پر جو کچھ بھی ہورہا ہے ،عوام نہ صرف بغور دیکھ رہے ہیں ، بلکہ سمجھ بھی رہے ہیں کہ اُن کے نام پر اُن کے ساتھ ہی سارا کھیل کھیلا جارہا ہے ،اس ملک میں عوام کیلئے انصاف کا حصول کبھی آسان رہا ہے نہ ہی آسان بنانے کی کوئی کوشش کی جارہی ہے ، یہ سب کچھ اپنے مفادات کے حصول کیلئے ہورہا ہے اور اپنے ہی مفادات کے حصول کو یقینی بنایا جارہا ہے ، یہ ایک دوسرے کو منانے اور اتفاق رائے پیدا کر نے کا تماشہ رچایا جارہا ہے جو کہ ماسوائے عوام کو بہلانے اور بہکانے کچھ نہیںہے ، یہ سب اندر سے راضی ہیں ،لیکن اس رضامندی کی قیمت بڑھانے کیلئے اتفاق رائے پیدا کر نے کا بہانہ بنارہے ہیں

،ایک کے بعد ایک جواز تراش رہے ہیں ، جبکہ حکومت اپنی مجبوری ضروری سامنے لارہی ہے، عوام کے کا ندھوں پر رکھ کر اپنے مفادات کی بندوق چلارہی ہے اور باور کرا رہی ہے ، آئینی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ سے آئینی مقدمات کا بوجھ کم ہو جائے گا، اگر چہ مقدمات کا التوا اور فیصلوں میں تاخیر ہمارے عدالتی نظام کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے‘ تاہم اس کیلئے آئینی عدالت کا قیام مسئلے کا حل نہیں‘

کیونکہ مقدمات کا التوا ماتحت عدالتوں اور ہائی کورٹس کی سطح پر ہے اور آئینی عدالت اعلی عدلیہ میں بنانے پر زور دیا جارہا ہے ، جہاں تک پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار کی بات ہے تو یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ پارلیمان عوام کے تفویض کیے ہوئے اختیارات کیساتھ ریاست میں سب سے بڑا قانون ساز ادارہ ہے‘مگر اس اختیار کے ساتھ ذمہ داری کا احساس بھی اتنا ہی اہم ہونا چاہیے، جو کہ اپنے ذاتی مفادات کی مجبوری ضروری میں کہیں دکھائی ہی نہیں دیے رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں