چراغِ زندگی ہو گا فروزاں ہم نہیں ہوں گے..
تحریر:نعیم. الحسن نعیم
زندگی موت تک کا وہ تلخ سفر ہے جس نے اپنے اختتام پہ اپ سے اجازت نہیں لینی-
سابق وزیر حکومت چوہدری محمد عزیز صاحب(مرحوم) کے نماز جنازہ کے مناظر آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ انسان جب دنیا میں لوگوں کے ساتھ اچھا وقت گزارتا ہے تو پھر بارش ہو یا طوفان ایسے لیڈر کے جنازے بھی اس کی اعلیٰ زندگی کی گواہی دیتے ہیں.
چوہدری محمد عزیز صاحب آزاد کشمیر کی سیاست کا ایک ناقابل فراموش باب تھے۔ ایک ایسے سیاستدان جنہوں نے نہ صرف اپنی بات منوائی بلکہ عوام کی آواز بن کر ہر موقع پر حق کی بات کی۔ جب وہ اسمبلی کے ایوانوں میں گرجتے تھے
تو مخالفین بھی ان کی دلیل کی مضبوطی اور حق گوئی کی داد دیے بغیر نہ رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو عوام کی خدمت کے لیے وقف کیا، اور ہمیشہ غریبوں کے حق کے لیے لڑتے رہے۔ایک ایسا باہمت اور دلیر انسان، جس کی سیاست میں بہادری اور جرأت کی مثال دی جاتی تھی-ایک قداور شخصیت گوشہِ نشینی میں چلی گئی ۔انکی شخصیت کے بارے میں احاطہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے
۔ وہ ایک شمع کی مانند آ ئے اور لاکھوں محبت کرنے والوں کو پروانے بنا کر چھوڑ گئے ۔سیاست کے میدان کا بے تاج بادشاہ ہر وقت مرد میداں رہنے والا ہارا تو قانون قدرت کے سامنے زندگی کی جنگ ہارا نقصان تو پوری ریاست کا ہوا ایک تراشا ہوا ھیرا ریت بن گیا ۔ایک عہد تھا ۔۔۔۔۔جو تمام ہوا
حقیقی معنوں میں حویلی یتیم ھو گئی ھے اقتدار کے ایوانوں میں بجلی کی طرح گونجنے والی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ۔ اپنے حق کی خاطر بڑے سے بڑے فرعون سے ٹکرا جاتا تھا ڈر نام کی کوئی چیز اس شخص کی ڈکشنری میں نہیں تھی وہ دلیر ، باغیرت ، نڈر بے باک جواں ہمت اور اصول پسند تھا
اس نے جب کامیابی کا سفر شروع کیا تو پھر پیچھے مڑ کہ نہیں دیکھا لگاتار کامیابیاں سمیٹتا چلا گیا پوری ریاست کے اندر اور باہر بڑا نام کمایا وہ مظلوم ، بے سہارا اور پسے ہوئے طبقات کا سہارا تھا اللّٰہ پاک نے جو خوبیاں اور صلاحیتیں چوہدری محمد عزیز صاحب مرحوم کو دے رکھی تھی وہ کسی دوسرے کے پاس نہیں تھیں وہ مرد آہن جب تک جیا آیک شان کے ساتھ دھاڑتے شیر کی طرح جیا اور جب مرا ایسی سج دھج سے گیا کہ صدیوں تک دنیا یاد کرے گی کہ کسی دھرتی پر کوئی مرد آیا تھا چوہدری محمد عزیز صاحب جیسا لیڈر صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے ان کی کمی پوری زندگی محسوس ہوتی رہے گی وہ ریاست کی پہچان تھا ۔
وہ جتنا جيا كمال جيا اسکی جرات کمال.
اسکی للكار وہ بے خطر دھاڑ۔
زندگی نے چوہدری عزیز سے سیکھا کہ جیا کیسے جاتا ھے۔۔۔
وہ کیا خوب زندگی ہے ۔۔۔
جوموت کے بعد بھی مسکرائے ۔۔
کبھی دن کے اجالے میں ،کبھی ڈھلتی رات میں کبھی محفلوں میں کبھی بدلتے موسم میں۔۔
یاد بھی ایسی کہ سب کچھ یاد کرادے ۔۔
چوہدری محمد عزیز صاحب
کون بھول سکتا ہے ؟
کون دل سے نام مٹا سکتا ہے۔۔۔
چوہدری محمد عزیز صاحب نوجوانوں کے دلوں میں بسنے والے تھے غریب اور متوسط طبقے کے لیڈر تھے سفید پوش سیاسی کارکنوں کے دلوں کی دھڑکن تھے..
اتنا پیار اتنی محبت
کسے نصیب میں ملے گی۔۔
ضلع حویلی اپنی جگہ قائم رہے گا۔۔۔ حویلی میں موسم آتے اور جاتے رہیں گے ۔۔
سیاست بھی قائم و دائم رہے گی الیکشن بھی ہوں گے ہار جیت بھی ہو گی جلسے جلوس بھی ہوں گے—-
مگر چوہدری محمد عزیز صاحب اب کبھی نہیں آئیں گے ۔۔ سچ کا داعی ،عمل کا پیکر ،سیاسی دبنگ لیڈر شیر حویلی بانی حویلی معمار حویلی سالار حویلی چوہدری محمد عزیز نہیں ہو گا۔۔۔۔
یاد آئے گی اور بہت آئے گی راجہ فیصل ممتاز راٹھور صاحب عامر نذیر صاحب آپ کو چوہدری محمد عزیز صاحب جیسا سیاسی حریف نہیں ملے گا۔۔ حویلی والو مزدور کی طرح آپکی خدمت کرنا والا نڈر اور بےباک چوہدری عزیز نہیں ملے گا
الفاظ نہیں کہ محبت کے پھول نچھاور کروںجملے ختم ہو گئے ۔۔۔
سوچ میں سوچ امڈ رہی ہے ۔۔۔
وہ ملنسار انسان ۔۔۔ وہ مہربان اور شفیق انسان ۔۔ وہ کھرا اور بیباک ۔۔
جس کا سر ہمیشہ سربلند رہا ۔۔
بلند سوچ عظیم فکر ۔۔۔
کاش کہ پہاڑ نہ ہوتے اور ان کا پھیلائو بہت زیادہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال زندگی گزاری ،خوب گزاری ۔۔ سر اٹھا کر گزاری ۔۔
سچ کے سنگ گزاری ۔۔
بہادری کے ساتھ گزاری…
ہم سب نے اس عارضی دنیا سے جانا ہے مگر جس شان سے چوہدری محمد عزیز صاحب گئے جس وقار سے جس عزت سے چوہدری محمد عزیز صاحب گئے یہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے..
اللہ تعالی بانی حویلی چوہدری محمد عزیز صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین.