کوئی شکوہ نہ کرے !
دنیا میں ایک طرف تیزی سے عالمی جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں تو دوسری جانب پا کستان میں حکومت کے خلاف شدید احتجاج چل رہے ہیں ،اس پروفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہناہے کہ ڈی چوک پراحتجاج کرنے کی بات کرنے والا کوئی ہتھے چڑھ گیا تو نرمی نہیں برتیں گے، ہم نے پورا بندوبست کررکھاہے،خبردار کررہے ہیں ،پھر کوئی شکوہ نہ کرے، جبکہ تحریک انصاف قیادت کا کہنا ہے کہ ہم پرامن احتجاج کرنا چاہتے ہیں،
ہمارے راستے روکے جائیں نہ ہی اتنے ظلم و ستم ڈھائے جائیں، جو کہ وقت آنے پر خودد بر داشت نہ کر پائیں،اس وقت حکومت کا ہرظلم برداشت کرلیں گے، لیکن تحریک انصاف حکومت آنے پر ان کا احتساب کریں گے تو پھر کوئی شکوہ نہ کرے؟یہ انتہائی سوچنے کی بات ہے کہ ا یک ایسے وقت میں جب کہ ایک طرف ملائیشیا کے وزیراعظم دورہ ٔپاکستان کر رہے ہیںتو دوسری جانب شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس شیڈول ہے، ایسے میںاپوزیشن کی جانب سے احتجاج کی کال اور حکومت کے وزرا ء کی جانب سے بزور طاقت روکنے کیلئے کی جانے والی پریس کانفرنسوں سے ملک کا کیسا تشخص اجاگر ہورہا ہے؟
اس اہم موقع پر سیاسی قائدین کو داخلی یکجہتی کا تاثر دینا چاہئے ،لیکن اس کے بر عکس محاذ آرائی اور تشدت دکھایا جارہا ہے ،ملک میں انتشار بڑھایا جارہا ہے ، عدم استحکام میں اضافہ کیا جارہا ہے ، اس میں حزب اقتدار کے ساتھ حزب اختلاف بر ابر کی شر یک کار ہے ، اس میں کسی ایک کی بھی کوشش افہام تفہیم کی جانب بڑھنے کی ہے نہ ہی ملک میں استحکام لانے کی دکھائی دیے رہی ہے ، اس سے ملک کے اندر جہاں عوام مایوس ہورہے ہیں ،وہیں بیرون ملک بھی جگ ہنسائی ہورہی ہے ، حکومت اپنی روش بدل رہی ہے
نہ ہی اپوزیشن اپنے رویئے میں کوئی تبدیلی لارہی ہے ، دونوں ہی ماریں گے یا مر جائیں گے کی راہ پر گامزن ہیں اور اس میں نقصان ملک وعوام کا ہورہا ہے۔ملک کی ساکھ کا کسی کو احساس ہے نہ ہی کو ئی عوام کی بد حالی کا خیال کررہا ہے ، ہر کوئی اقتدار کیلئے ہی دست گر یباں ہو رہا ہے اوراپنے حصول مفاد میں عوام کو نہ صرف بہکارہاہے،بلکہ اس کا بڑی بے دردی سے استحصال کررہا ہے ، عوام کو ہی دھمکایا جارہا ہے اور اس کو ہی ظلم ستم کا نشانہ بنا یا جارہا ہے ، یہ کہاں کی جمہوری حکومت ہے
اور اس جمہوری حکومت میں کیسا انصاف ہورہا ہے کہ عوام کے نام پر اپنے ہی مفادات کے حصول کو پا لیمان سے عدلیہ تک ممکن بنایا جارہا ہے، انہیں کوئی روک رہا ہے نہ ہی کوئی ٹوک رہا ہے ، کیو نکہ اس مفادات کی دوڑ میں سارے ہی شریک کار ہیں اور ایک دوسرے کوہی سپورٹ کررہے ہیں ، یہ بین الاقوامی اور علاقائی حرکیات کی تفہیم کے بجائے آپس کے مناقشوں میں ہی الجھتے جارہے ہیں، جبکہ قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ ہر کوئی ایک ایک قدم پیچھے ہٹے اور سیاسی حدت میں کمی لائے اور اتفاق رائے سے کوئی آگے بڑھنے کی رہ نکالی جائے ، اس حولے سے حکومت آئینی ترمیم کے معاملے کو ملتوی کر کے اور اپوزیشن اپنا احتجاج مواخرکر کے سیاسی درجہ حرارت متوازن بنا سکتی ہے۔
اگرچہ سیاسی و عوامی احتجاج ایک جمہوری حق ہے ،اس کے کچھ ضوابط اور قواعد بھی ہوتے ہیں،یہ بے وقت کا احتجاج کبھی کبھار اپنے ہی گلے پڑ جاتا ہے ،ایک الزام بن جاتا ہے ،جیسا کہ چینی صدر کے دورہ پاکستان کو سبوتاژ کرنے کا الزام پی ٹی آئی کے گلے پڑا ہواہے‘ اس بار ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے کہ جس سے ایک بار پھر تاثر اجاگر ہو جائے کہ پی ٹی آئی ریاست کے خارجہ تعلقات پر اپنے سیاسی مفادات کی بنیاد رکھنا چاہتی ہے، یہ ملک ہم سب کا ہے‘ اور اس کا تشخص مجموعی طور پر ہمارا ہی امیج ہے‘ لہٰذا ریاستی تشخص کو ہر چیز پرمقدم رکھنا چاہیے،دوسری جانب حکومت کو بھی اپوزیشن کے احتجاج سے لے کر آئینی ترامیم کے معاملے پر اتائولے پن کے بجائے متحمل طرزِ عمل اپنا چاہیے،اگر ملک میں جمہوریت ہے تو پھر جمہوریت ہر شے میں شفافیت کا تقاضا کرتی ہے،
اس معاملے کو جتنا مخفی رکھا جائے‘ اتنا ہی شکوک و شبہات میں اضافہ ہو گا، حکومت کو مجوزہ آئینی ترامیم سامنے لا کر ان پر پارلیمان میںبحث کا آغاز کرنا چاہیے، یہ جلد بازی میں آئینی ترامیم کی منظوری اور صدارتی آرڈینس کا اجراء مزید ابہام ہی پیدا کرے گا۔یہ بات اتحادی حکومت بخوبی جانتی ہے،اس کے باوجود پچیس اکتو بر سے قبل ہی آئینی ترامیم منظور کر نا مجبوری اور ضروری بنا لیا گیا ہے ، اس کے پیچھے کو نسی طاقت کار فر ما ہے اور یہ سب کچھ اتنی جلدی میں کیوں کیا جارہا ہے ،؟یہ سب کچھ جا نتے
ہوئے بھی کوئی زباں پر لارہا ہے نہ ہی کوئی بتاپا رہا ہے ، کیو نکہ ساروں کے پائوں تلے سے زمین سر کنے لگتی ہے ،زباں حلق میں خشک ہو نے لگتی ہے ، لیکن دانشمندی کا تقاضاہے کہ ایسے معاملے میں‘ جو کہ وسیع تر اہمیت کا حامل ہو‘ زیادہ سے زیادہ احتیاط سے کام لیا جانا چاہئے اور اس آئینی ترمیم کے معاملے میںپارلیمانی اور غیر پارلیمانی سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا جانا چاہئے،ورنہ یہ آئینی ترامیم کا کھیل حکومت کے ساتھ اس کے حواریوں کو بھی لے بیٹھے گا اور یہ کہیں شکوہ شکایت کر پائیں گے نہ ہی اس سے اپنی جان چھوڑا پائیں گے ،اس حوالے سے حفیظ جا لندھری نے کیا خوب کہا ہے کہ ، کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے
اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہو تا ہے !