57

معاشی استحکام میں سیاسی استحکام کے رنگ !

معاشی استحکام میں سیاسی استحکام کے رنگ !

ملک میں سیاسی انتشار میں آئینی ترمیم لانے کازور بڑھتا ہی جارہا ہے ، اس زور شور میں مولانا فضل الر حمن بھی نرم پڑ تے دکھائی دینے لگے ہیں ، لیکن تحریک انصاف اپنے احتجاج سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہے ، حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ہی اپنے حصول مفاد میں مارو یا مرجائو کی راہ پر گا مزن ہیں،یہ پاکستان کے ساتھ کیا کچھ کررہے ہیں،اس کو کس جانب لے کر جا رہے ہیںاوراس کے پلے کیا چھوڑ رہے ہیں، اس بارے کوئی سوچ رہا ہے نہ ہی اس کا خیال کیا جارہا ہے ،یہ مفاد پرست اپنے ہی ملک کے ساتھ جوکچھ کرنے جارہے ہیں، تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
اس ملک میں ہر ایک کوہی اپنے حصول مفاد کے علاوہ کسی سے کوئی غرض ہی نہیں ہے ، آئین کو پامال کیا جارہا ہے ،قانون کا حولیہ بگاڑا جارہا ہے ، اداروں کو ایک دوسرے کے سامنے لایا جارہا ہے ، پا رلیمان کو ربڑ سٹیمپ بنایا جارہا ہے اور اس پر عوام کو ور غلایا جارہا ہے اور عوام کو ہی بے وقوف بنایا جارہا ہے کہ سب کچھ آپکے لیے ہی کیا جارہا ہے ، جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے ، لیکن کوئی روک رہا ہے

نہ ہی کوئی ٹوک رہا ہے ، سارے ہی اندر خانے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور ملی بھگت سے ہی ایسا سب کچھ عوام کے نام پرکر رہے ہیں، جو کہ در حقیقت عوام کو نہیں ،انہیں ہی سوٹ کر تا ہے اور ان کے ہی مفادات کو دوام دیتا ہے ۔
عوام سب کچھ جان چکے ہیں اور آزمائے چہروں کو پہچان بھی چکے ہیں ، لیکن عوام کو آزادانہ حق رائے دہی دیا جارہا ہے نہ ہی ان کا حق رائے دہی مانا جارہا ہے ، عوام پر بند کمروں کے فیصلوں کو ہی مسلط کیا جارہا ہے اور مجبور کیا جارہا ہے کہ ان فیصلوں کو نہ صرف مانا جائے ،بلکہ ان کے خلاف کوئی آواز بھی نہ اُٹھائی جائے، لیکن عوام ان فیصلوں کو مان رہے ہیں نہ ہی خاموش بیٹھ رہے ہیں ، بلکہ اس کے خلاف آواز اُٹھا رہے ہیں،

اس آواز کو بزور طاقت دبایا جارہا ہے ، دیوار سے لگایا جارہے ،اس سے جہاں محاز آرائی میں اضافہ ہورہا ہے ،وہیںسیاسی انتشار بھی بڑھتا ہی جارہا ہے ، جو کہ ملک کے مفاد میں ہے نہ ہی نام نہاد جمہوریت کیلئے بہتر ہے ۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ جمہوریت کے بڑے علمبر دار ہی جمہوریت کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں اور اپنے اقتدار کیلئے آمرانہ سوچ کو فروغ دیے رہے ہیں ، یہ ایک طرف غیر جمہوری قوتوں کے نپ صرف اشاروں پرچل رہے ہیں ، بلکہ اُن کیلئے راہیں بھی ہموار کررہے ہیں ، اس کے بعد کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ جمہوراور جمہوریت کو مضبوط کر نے کیلئے کیا جارہا ہے ، جبکہ یہ سب کچھ اپنے اقتدار کو بچانے اور آ گے چلانے کیلئے کیا جارہا ہے

، اس لیے ہی ملک میں سیاسی استحکام آرہا ہے نہ ہی ملک آگے بڑھ پارہا ہے،لیکن حکومت دعوئیدار ہے کہ اقتصادی اشاریے مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں ،مہنگائی کی شرح میں کمی آرہی ہے‘برآمدات اور ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہورہا ہے اور سٹاک مارکیٹ بھی اوپر جا رہی ہے۔اگر مان بھی لیا جائے کہ معاشی استحکام کیلئے حکومت بہت کچھ کررہی ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیں ،مگر استحکام کا عمل ابھی ادھورا ہے، اس کو سیاسی استحکام ہی تقویت دے سکتا ہے، دوسری صورت میں حکومتی کاوشیں مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام ثابت ہو سکتی ہیں،اگر حکومت کا اولین ایجنڈا معاشی استحکام ہے

تواس میں سیاسی استحکام کی کوششیں ہی رنگ بھر سکتی ہیں، لیکن اس لیے ضروری ہے کہ مفاہمت کی کوششوں میں سنجیدگی دکھائی جائے،جو کہ اب تک کہیں دکھائی نہیں دیے رہی ہے ، حالا نکہ ماضی گواہی دیے رہاہے کہ سکیورٹی خطرات سے نمٹنے میں بھی سیاسی مفاہمت سے ہی مدد ملتی رہی ہے ،اس کے باوجود سنجید گی دکھائی جارہی ہے نہ ہی کوئی مشترکہ لائحہ عمل مرتب کر نے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس ملک کی سکیورٹی اور معاشی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مشترکہ جدوجہد آزمودہ ہے ، اس کا حزب اقتدار اورحزبِ اختلاف کو بھی ادراک ہوچکا ہو گا کہ آئے روز کے احتجاج اور ہنگامہ آرائی کا کوئی ثمر ہے نہ ہی بزور طاقت عوام کے خلاف مہم جوئی کا کوئی حاصلِ ہے، اس پر دونوں جانب کی سنجیدہ قیادت کوسنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے،اس وقت سکیورٹی اور معیشت کا استحکام ہی ایک ایسا مقصد ہے،

جو کہ حکومت اور حزبِ اختلاف میں تعاون کا امکان پیدا کرسکتا ہے،اس کی دونوں دھڑوں کو ضرورت ہے، اس کی حکو مت کو ضرورت اس لیے ہے کہ اپنے طے شدہ ترقی کے ایجنڈے پر یکسوئی سے توجہ دینے کیلئے اسے وقت مل سکتا ہے‘ جبکہ حزبِ اختلاف کے پاس پچھلے دو برس کے دوران ہر طرح کے دائوپیچ آزمانے کے بعد یہ ہی ایک راستہ بچتا ہے، جو کہ اس کی سیاسی بقا کی ضمانت بن سکتا ہے،اگر دونوں نے ہی سیاسی استحکام کے رنگ بھر نے میں سنجیدگی نہ دکھائی تو پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ، سر پر ست ہی سب کچھ لے جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں