85

“غرور کا سر نیچا”

“غرور کا سر نیچا”

تحریر:نعیم الحسن نعیم

مقبوضہ کشمیر کے انتخابی نتائج نے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی تمام ہیکڑی نکال دی-کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کو دہائیوں بعد صوبائی اسمبلی میں ملنے والی برتری بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور انتہا پسند بی جے پی کے سیاسی بیانیے کو عبرتناک شکست ہوئی۔
اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعدمقبوضہ کشمیر میں پہلی مرتبہ الیکشن ہوئے ہیں۔ان انتخابات کی خاص بات یہ تھی کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی کے رہنما پہلی مرتبہ ہندو چیف منسٹر بنانے اور جموں کشمیر میں اقتدار حاصل کرنے کے مسلسل دعوے کر رہے تھے۔پچھلے کئی سال سے نریندر مودی یہ بھی کہتا رہا کہ جموں کشمیر میں باپ بیٹے اور باپ بیٹی کی سرکار نہیں بنے گی۔ ان کا اشارہ فاروق عبداللہ اور ان کے بیٹے عمرعبداللہ اور مفتی سعید اور ان کی بیٹی محبوبہ مفتی کی طرف تھا-
آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد مودی اوراس کے حواری یہ سمجھتے تھے کہ کشمیری عوام نے ان کے فیصلے کو قبول کر لیا ہے-اس سے یہ اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ بی جے پی اب جموں کے بعد کشمیر میں بھی سیاسی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔اس سلسلے میں کافی کچھ ہوا بھی۔ کشمیر میں سینکڑوں لوگوں کو بی جے پی میں شمولیت بھی اختیارکروائی گئی لیکن انتخابات میں وادی کی 47نشستوں پربی جے پی کوصرف 19امیدوار مل پائے اوران میں سے بھی کوئی کامیاب نہ ہوسکا،یوں بے جے پی دھونس دھاندلی اور دباؤ کے باوجود کشمیر ویلی میں اپنا سیاسی کھاتہ تک نہیں کھول پائی۔
جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں بھلے بی جے پی کو 29 سیٹیں ملی ہوں، لیکن جموں کے سماجی اور سیاسی حلقوں میں بی جے پی کی حکمت عملی سے متعلق کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔اگرچہ بی جے پی نیشنل کانفرنس کے بعد دوسری بڑی پارٹی کے طور پر ابھری ہے۔اور 2014 کے الیکشن میں جموں سے 25 سیٹیں حاصل کرنے والی بے جے پی اس بار چار کا اضافہ کر پائی ہے-
مگر دیکھا جائے تو الیکشن کے نتائج مودی اور بی جے پی کے کشمیر سے متعلق بیانیے کے خلاف واضح ریفرینڈم ہیں۔
حالیہ الیکشن میں مودی نے سرینگر اور جموں میں کئی ریلیوں سے خطاب کے دوران کہا کہ خاندانی راج ختم ہو رہا ہے اور دفعہ 370 کو واپس لانے کی باتیں کرنے والے درحقیقت لوگوں کو بہکا رہے ہیں۔
کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے اتحاد پر ’پاکستان کے ایجنڈے پر کام کرنے‘ کا الزام تک لگا دیا۔مودی اور بی جے پی کا بیانیہ یہ تھا کہ دفعہ 370 کے خاتمے سے لوگ خوش ہیں اور وہ اس بار ’خاندانی پارٹیوں کو شکست دے کر‘ اس فیصلے کی توثیق کریں گے۔
دوسری جانب نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے لوگوں سے شناخت اور آئینی حقوق کی بحالی کے لیے ووٹ مانگا تھا۔
الیکشن کے نتائج مودی اور بی جے پی کے کشمیر سے متعلق بیانیے کے خلاف واضح ریفرینڈم ہے۔ اس بیانیہ کی کشمیر میں ہار ہوئی ہے۔
دوسری جانب نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے لوگوں سے شناخت اور آئینی حقوق کی بحالی کے لیے ووٹ مانگا تھا۔دہائیوں بعد پہلی بار کشمیر میں ہونے والے انتخابات کے دوران بجلی، پانی ، سڑک اور روزگار کا مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔نیشنل کانفرنس کے منشور میں آرٹیکل 370 کی بحالی، انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بحالی، قیدیوں کی رہائی اور اظہار رائے کی آزادی کو بحال کرنے جیسے وعدے کیے تھے۔اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کانگرس اپنے انتخابی وعدے کے مطابق آرٹیکل 370 کا دوبارہ نفاذ کرپائے گی؟
اِن انتخابات میں فاروق عبداللہ اور عمرعبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ انتخابی اتحاد کیا تھا۔ نیشنل کانفرنس اپنے بل بوتے پر 40 سے زیادہ سیٹوں پر فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جبکہ کانگریس چھ سیٹیں جیت پائی۔
اس طرح 90 سیٹوں پر مشتمل جموں کشمیر اسمبلی میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اتحاد نے واضح اکثریت حاصل کی ہے۔دوسری جانب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جموں کے میدانی اور پہاڑی علاقوں میں 29 سیٹیں حاصل کی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی کو شرمناک شکست۔بڑے پیمانے پر پولنگ سے قبل دھاندلی،نام نہاد حلقہ بندیوں اور سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کے باوجود 90 رکنی کشمیر اسمبلی میں بی جے پی وادی کشمیرمیں ایک بھی حلقے سے کامیاب نہیں ہو سکی ہے ۔
اگرچہ بی جے پی نے انتخابات میں 29نشستیں حاصل کی ہیں تاہم اسکے امید وار ہندو اکثریتی جموں سے کامیاب ہوئے ہیں۔
نیشنل کانفرنس اورکانگریس کے اتحاد نے 49نشستوں پر کامیابی حاصل کی، جس میں نیشنل کانفرنس کی 42، کانگریس کی 6نشستیں ہیں۔
اسکے علاوہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے 3،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ ، پیپلز کانفرنس اور عام آدمی پارٹی نے ایک ایک نشست اپنے نام کی ہے جبکہ 7آزاد امیدوار بھی کامیاب قرار پائے ہیں۔
بی جے پی کی شکست سے 5اگست2019کے غیر قانونی اقدامات کی وجہ سے کشمیریوں پر پائے جانیوالے شدید غم وغصے کی عکاسی ہوتی ہے ۔
کشمیری عوام نے انتخابات میں بی جے پی کو مسترد کر کے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ وہ اپنے مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور حق خودارادیت کے حصول کیلئے پر عزم ہیں اور وہ اپنی حق پر مبنی جدوجہد آزادی ہر قیمت پر جاری رکھیں گے-مقبوضہ کشمیر میں مودی اور بھارتی جنتا پارٹی کا بیانیہ دفن ہو چکا ہے-
کانگریس اتحاد 51 نشستیں جیت کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگیا۔ اس جیت کے ساتھ اتحاد نے حکومت سازی کی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔
گے۔
2019 کے بعد جموں و کشمیر کے سیاسی منظرنامہ تبدیل کرنے کی کوششوں میں حلقہ بندیاں تبدیل کرنا اور زمین کی ملکیت کے قوانین میں ترمیم شامل تھی، جسے کشمیریوں نے موجودہ انتخابات میں مسترد کر دیا۔کشمیر میں مودی کی شکست بھارتی قبضے اور آباد کاری کی نو آبادیاتی پالیسی کے خلاف ایک ووٹ ہے.
نیشنل کانفرنس اور فاورق عبداللہ کو انتحابات میں کامیابی مبارک ہو فاورق عبداللہ غدار ہے یا سہولت کار یہ ایک الگ بحث ہے-لیکن حکومتی مشینری بندوقوں کے سائے میں ووٹ پول کرنا حکومتی مشینری کو شکست مقبوضہ کشمیر کی عوام بھی مبارکباد کی مستحق ہے.مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں 10 سال بعد ایک علاقائی حکومت کا انتحاب ہوا ہے-مقبوضہ جموں و کشمیر میں عوام نے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور حق خودارادیت کے لئے کشمیریوں کی جدوجہد کو دبانے کی اس کی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے

اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔بھارتی پارلیمنٹ کے انتخابات میں انجینئر رشید کی حالیہ فتح نے بھی مقبوضہ جموں کشمیر کے سیاسی منظر نامے میں ایک حیرت انگیز جھٹکا لگا دیا ہے۔ انجینر رشید اگرچہ ایک متنازعہ شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں مگر خطے کے حالات کو متاثر کرنے والے مسائل پر اپنے واضح خیالات اور غیرمتزلزل موقف کے لیے بھی جانے جاتے ہیں-ان کی جیت نے لوگوں میں جوش اور اضطراب دونوں کو جنم دیا ہے۔؛

انکی کامیابی کشمیر کی سیاست میں ایک واضع تبدیلی کے آثار کی طرف اشارہ کرتی ہے، اب بی جے پی اور اسکے اتحادیوں کے ساتھ ریاست کے بھارت نواز روایتی سیاستدانوں کو مسترد کیا ہے اور واضع پیغام دیا ہے اس آواز کے ساتھ لوگ کھڑے ہوسکتے ہیں جو جمود کو چیلنج کرتی ہے اور کشمیری عوام کے حقوق اور امنگوں کی وکالت کرتی ہو۔
غیرقانونی طور پر بھارت کے زیرِقبضہ جموں کشمیر میں عوام نے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور حق خودارادیت کے لئے کشمیریوں کی جدوجہد کو دبانے کی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے۔
کشمیری مسلمانوں نے جو بھارتی قبضے کے تحت ہونے والے کسی بھی انتخابات کو محض ایک ڈھونگ سمجھتے ہیں ، اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہندوتوا پارٹی کو اپنا وزیر اعلیٰ مسلط کرنے سے روک دیا اور اس طرح اپنی منفرد شناخت کا تحفظ کیا۔انتخابی نتائج سے ایک واضح پیغام ملا ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام بی جے پی اور 5 اگست 2019ء کو کیے گئے غیر قانونی اقدامات کو مکمل طورپر مسترد کرتے ہیں

۔ کشمیریوں کے دل جیتنے کے بی جے پی کے دعوے بے نقاب ہو گئے ہیں۔مقبوضہ جموں کشمیر میں امن ، ترقی اور خوشحالی لانے کے پارٹی کے دعوے شرمناک انتخابی شکست کے بعد دھرے کے دھرے رہ گئے۔انتخابات سے ایک اور اہم نکتہ واضح ہو گیا کہ کشمیری مسلمان اپنی الگ شناخت اور مسلم ثقافت کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہیں۔ بھارتی جبر کے خلاف متحد کشمیری عوام اپنی شناخت اور ثقافت کو مٹانے کی مودی کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے اپنے عزم پر قائم ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں