اپنے اطراف لاتعداد ہجوم میں وفاداروں کی پہچان کا عرب طریقہ
۔ ابن بھٹکلی
۔ +966562677707
جب کسی عرب خاندان میں گھوڑے کی نسل بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی اور ان کی اصل نسلوں کی پہچان ممکن نہ رہ پاتی تھی تو،سبھی گھوڑوں کو،کسی ایک مقام پر جمع کر لیتے۔ پھر کھانا پینا بند کر دیتے اور شدید قسم کی مارپیٹ کرتے۔ مار پیٹ کے بعد پھر گھوڑوں کے لئے،کھانا پانی لادیتے، تب گھوڑے دو مجموعوں میں بٹ جاتے تھے۔ کچھ گھوڑے تو فورا کھانے کی طرف دوڑتے پائے جاتے، جیسے انہیں کچھ فرق ہی نہیں پڑتا کہ کھلا پلا کون رہا ہے؟ اور مارا کس نے تھا؟
اور دوسرا گروہ تھا نسلی گھوڑوں کا، جو ان ہاتھوں سے کھانا کھانے سے انکار کر دیتے تھے جن ہاتھوں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے ان سے مار پیٹ کئے ان کی توہین کی تھی۔ ان کی عزت نفس کو پامال کیا تھا۔۔
انسانی معاشروں کو بھی کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہوتا ہے۔ اہنی اہنی عزت س تکریم اعتبار سے اپنے مدمقابل ہجوم پر، ظلم و جبر زیادتی کرنےکے بجائے، خود کی بے بسی، بےکسی کو،اپنے سامنے والے انسانی دوست نما اقرباء پرور ہجوم درمیاں، کچھ اس انداز ظاہر کیجئے یا کروادیجئے کہ اس وقت ہم آپ کے علاوہ مجمع میں، اتنا ضرورت مند،بے کس و محتاج کوئی اور نہیں ہے، پھر دیکھئے کیسے ان ظلم سہے گھوڑوں میں بنے دو فرقوں کہ طرح،ہم آپ کے ہمراہ کھڑے،اپنوں کا مجمع بھی، دو گروپ میں کیسے بٹ جاتا ہے؟ کثیر التعداد ایک ایسا گروپ جو گویا آپ کو جانتا ہی نہ ہو یا آپ سے ماضی میں کوئی تعلق خاص رہا ہی نہ ہو، جو علی الصبح چڑھتے سورج کی کرنوں والی تپش کے ساتھ، پورے ماحول پر چھائے خنک آلود آبرزد ابر و بادل کے مرغولوں کو سرے سے غائب ہی کر دیتے ہیں
،تو دوسرا ایک آدھی نفری گروپ،جو ہم آپ کی، بظاہر پیش کی گئی تکلیف میں،ہمارے ساتھ کھڑے پائے جاتے ہوں۔ اپنی کسم و پرسی باوجود، آپنی استعداد سے زیادہ بڑھ چڑھ کر ہماری مدد و نصرت کرنے آگے آتے ہوں،اپنے محدود وسائل والے لقموں کو بھی، بڑے پیار و دلار سے ہمیں پیش کرتے پائے جاتے ہوں۔ نسلی گھوڑوں کے مقابلے بدقسمتی سے بدنسل گھوڑوں کی تعداد بھلے ہی کیوں نہ پائی جاتی ہو؟ لیکن ہم آپ کے پاس بچا،ایک آدھ نسلی گھوڑا بھی ہمیں اپنی پہچان معاشرے میں از سر نؤ قائم رکھنے میں، جیسےممد و مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔بالکل ویسا ہمارے اطراف جمع جم غفیر ثناء خواہاں میں سے، صحیح معنوں ہماری مدد و نصرت کرتا کوئی ایک مخلص دوست بھی ہمارے لئے سرمایہ حیات سے کم نہیں ہوتاہے۔
اسی لئے، اپنے اطراف ثناء خوانوں کی کثرت پر، اترانے سےاچھا ہےکہ،ایک آدھ مخلص دوست والے ہی خوش قسمت ہوا کرتے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے، جو ہم نے،اپنے لرکپن، جوانی و معشیتی سفر کے مختلف مراحل، ہلہ گلہ موج مستی کرنے والے کثیرالتعداد دوستوں میں سے، کسی کو بھی، قدرت کی طرف سے، معشیتی تکلیف دہ آزمائشی، اس کبار سنی والے دور میں، اپنے پاس نہیں پایا ہے۔ مشہور یورپی فلاسفر کا قول ہے، کسی بات پر ناراض مجمع نے، جب ان پر ٹماٹر انڈے برسائے، ان کی ہتک و بےعزتی کی تھی،
تب انہیں اتنا دکھ نہیں ہوا تھا، بنسبت اس لمحے کہ، جب “انکےاپنے بہترین دوست سمجھے جانے والے کسی ساتھی نے، انہیں دینے لائے پھول گلدستے کو، انکے خلاف عوامی رجحان دیکھ، ان سے ملے بنا ہی،اسی گل دستے کو، انکی طرف پھینک واپس چلے گئے تھے” اپنوں کو کھونے کا درد، تکلیف والے لمحات کو اور تکلیف دہ کر جاتے ہیں۔ومالتوفیق الا باللہ۔