یہ سیاسی جمود کیسے ٹوٹے گا !
پا کستان میںسیاست کا موسم بد لنے لگا ہے ، ایک با پھر ڈیل اور ڈھیل کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے ،بشریٰ بی بی کی رہائی کے بعد علیمہ خان ، عظمیٰ خان کی رہائی بھی ہورہی ہے، جبکہ چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی کی رہائی میرٹ پر ہوئی ہے‘ اگر کوئی ڈیل ہوتی تو نوں ماہ جیل میں نہ رہتیں‘ بشریٰ بی بی کسی تحریک میں شریک نہیں ہوں گی‘بہت جلد عمران خان بھی عوام کے درمیان ہوں گے، اس کی تائید کر تے ہوئے جمعیت علمائے اسلام(ف)قیادت کا کہنا ہے
کہ آئینی ترمیم میں پی ٹی آئی مکمل طور پر ساتھ رہی ہے، بشریٰ بی بی کے بعد عمران خان بھی آج نہیں تو کل رہا ہو جائیں گے،جبکہ سینیٹر فیصل واوڈا کا دعوی ٰہے کہ یہ ایک ایسی ڈیل ہے کہ جس کا بانی پی ٹی آئی کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔اگر دیکھا جائے تو اس وقت ہم ایک ایسے سیاسی دوراہے پر کھڑے ہیں کہ جہاں سے نکلنے والے سارے ہی راستوں کی منزل بالکل واضح ہے، ہم چاہیں تو اپنے قومی قافلے کی سمت فلاحی جمہوری مستقبل کی جانب موڑ سکتے ہیں اور چاہیں تو اس سے متضاد راستہ بھی اختیار کر سکتے ہیں، لیکن قومی سیاسی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتی ہے،
اگر سیاسی قیادت ملک و قوم کو استحکام وترقی کی راہ پر ڈالنا چاہتی ہے تو اس کے لیے سیاسی حدت کم کرنا ہو گی اور اہم قومی مسائل کے حل کے لیے یکسو ہونا ہو گا، اگرچہ ملکی ترقی میں حصہ ڈالنے کے اعتبار سے اپوزیشن کی ذمہ داری کم نہیں ،مگر حکومت پر بدرجہ اتم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مفاہمت کی سیاست کو فروغ دے، حکو متی وزرا ،اپنی شعلہ بیانی سے جلتی پر تیل ڈالنے کے بجائے سلگتی سیاست کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر یں ،ورنہ انتشار کی سیاست سب کچھ ہی راکھ کر دے گی۔
اس وقت حکومت چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کا معرکہ سر کر چکی ہے‘ نئے چیف جسٹس کی نامزدگی بھی ہو چکی ہے اور بظاہر کوئی ایسا بڑا سیاسی امتحان درپیش نہیں ، ایسے میں سیاسی جمو دکو توڑنا اور معیشت سمیت اہم معاملات پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا ،حکومت کی ایک بڑی ضرورت ہے ، کیو نکہ سیاسی انتشار سب سے زیادہ حکومت کی ہی کارکردگی پر اثر انداز ہوتا ہے، سیاسی جماعتوں کے مابین مکالمے اور بات چیت کی اہمیت کل بھی واضح تھی اور آج بھی سب سے آزمودہ اور کارآمد راستہ ہے
،سیاست کے بڑے فریقین حکومت اور حزبِ اختلاف کو اپنے اپنے گروہی اور وقتی مفادات سے ماورا ہو کر ملک وقوم کے مفادات کو اولین ترجیح دینی چاہیے اور اپنے الجھے معاملات کو مل بیٹھ کر سلجھا لینا چاہئے ، لیکن اس کیلئے ساز گار ما حول پیدا کر نا پڑے گا ، ایک دوسرے کو راستہ دینا پڑے گا ، سیاسی کار کنان کو قید و بند سے رہا کر کے سیاسی ماحول کو سازگار بنانا ہی پڑے گا۔
اگر ملک کے حالات ساز گار بنانے اور ملک کو آگے لے جانے کیلئے کوئی ڈیل یا ڈھیل کر نی پڑرہی ہے تو اس میں دیر نہیں کر نی چاہئے ،
اس ملک میں ڈیل اور ڈھیل کوئی پہلی بار نہیںہورہی ہے ، یہ ہر دور اقتدار میں کسی نہ کسی شکل میںہوتی ہی رہی ہے اور اس بار بھی آج نہیں تو کل ہو کر ہی رہے گی، اگر بشریٰ بی بی کی رہائی کے بعد علیمہ خان ، عظمیٰ خان کی رہائی بھی کسی ڈیل کا ہی نتیجہ ہے تواس سے سیاسی درجہ حرارت میں جو کمی کی اُمید جاگزیں ہورہی ہے‘ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے سیاسی تلخی کو مزید گھٹانے اور تمام سیاسی دھڑوں کو قریب لانے کی کوشش کرنی چاہیے، اس مفاہمتی سیاست کے فروغ اور سیاسی جمود کے خاتمے کے لیے دیگر سیاسی و غیر سیاسی حلقوںکو بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے،
اگرتمام سیاسی سٹیک ہولڈرز متحد اور متفق ہو کر ملک اور قوم کو درپیش مسائل کے حل کے لئے سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اورکوئی نیا میثاق معیشت ،میثاق مفاہمت کر لیںتو سیاسی جمود توڑا جاسکتا ہے، ملک کو سیاسی ومعاشی بحران کے گرداب سے نکلا جاسکتاہے، اگر حکومت اور اپوزیشن کیلئے فوری طور پر ایسا کرنا ناممکن ہے تو ایسا ہی کچھ عبوری طور پرکچھ وقت یا کچھ عرصے کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے،
ملک جونہی مالی مسائل کی دلدل سے باہر نکلے‘ اہل سیاست پھر سے اپنی روایتی سیاست شروع کر سکتے ہیں ، عوام سے ہی کب تک قر بانیاں مانگی جاتی رہیں گی اور عوام کب تک ایسے ہی قر بانیاں دیتے رہیں گے ، اب کچھ قربانیاںحزب اقتدار اور حزب اختلاف کو بھی دینی چاہئیں، اس کے بغیر سیاسی جمود ٹوٹے گا نہ ہی ہم آگے بڑھ پائیں گے ۔