اللہ کی مخلوق کی خدمت کئے،خالق کائینات کی رضا حاصل کرنا
۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707
انسانی معاشرے میں ایک دوسرے کی مدد ونصرت، ضرورت مندوں کی حاجت روائی کا درس سب سے پہلے مذہب اسلام ہی نے دیا ہے۔اللہ کی تمام مخلوق چرند پرند درند و حشرات الارض، یہاں تک کے پیڑ پودوں سمیت اللہ کی ہر مخلوق پر صلہ رحمی کا درس دئیے منجملہ مخلوق کی خدمت کئے،خالق کائینات کی رضا حاصل کرنے کا درس، عالم انسانیت کو، سب سے پہلے، نبی آخر الزماں رحمتوں للعالمین محمد مصطفیﷺ نے دیا تھا۔دعوت اسلامی تلوار کے زور پر پھیلا، الزام لگانے والوں کو، یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہئیے۔ کہ طلوع اسلام سے پہلے، ہندستان کے راجے مہاراجوں سمیت، روم و فارس والی اعلی اقدار یورپی حکومتیں بھی، اپنی سرحدوں کی توسیع کے لئے، جب بھی جنگ و حرب کرتی تھیں تو، مفتوحہ علاقوں میں نہ صرف قتل عام کیا جاتا تھا، تاکہ میدان چھوڑ بھاگ گئی،
مدمقابل افواج مستقبل میں، انکے خلاف صف بستہ ہونے کی ہمت تک نہ کرپائے، بالکہ ہرے بھرے کھیت کھلیان اور باغات تک کو آگ لگا، جلا دئیے جاتے تھے۔تاکہ میدان چھوڑ بھاگ گئی آفواج اس سے تازہ دم نہ ہوپائے۔ اور مفتوحہ علاقوں کی دوشیزاؤں کی عزت آبرو پامال کرنا بہادری یا اپنی ویرتا دکھلانے جیسا عزت و توقیریت والا عمل سمجھا جاتا تھا اسی لئے بھارت کے راجپوتانہ مفتوحہ علاقوں کی ناریان، دشمن افواج کے ہاتھوں اپنی عزت آبرو بچانے بڑے شاہی ہون میں، بڑے ہی شان سے اجتماعی خود سوزی جوھر کرتی پائی جاتی تھیں۔لیکن سرکاردوعالمﷺ نے، مفتوحہ علاقوں کے، انسانیت قتل عام سے بلکہ عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو کسی بھی قسم کی اذیت دینے و شرمندگی دلوانے سے فاتح قوم کو روکا تھا، بالکہ کھیت کھلیان باغات کو جلانے اور اجاڑنے سے بھی منع فرمایا تھا۔
آپﷺ نے اپنی عملی زندگی میں، اسلام مخالف مذہب یہود کی بوڑھی عورتوں کی، نہ صرف اپنے ہاتھوں خدمت کی بالکہ آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رض اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رض نے بھی، زندگی بھر، اپنے ہاتھوں سے مجبور و بے کس یہودی بڑھیاؤں کی مدد و خدمت کرتے ہوئے، بغیرتفاوت انسانیت کی خدمت کا ایسا درس ہم مسلمانوں میں ودیعت کیا تھا کہ، اس نفسا نفسا مہنگائی والے منافرتی دور میں بھی، بھارت کے ہم غریب و مسکین مسلمان، اپنی استطاعت سے بھی زیادہ بغیر تفاوت مذہب و ملت غرباء و مساکین کی مدد و نصرت کرتے پائے جاتے ہیں۔
ابھی کچھ سال قبل عالم کی انسانیت کو، اپنی چپیٹ میں لئے، کورونا وبا دوران، اپنے آپ کو خود ساختہ بھگوان کا اوتار کہنے اور کہلوانے والے، بھارت کی تاریخ کے سب سے طاقتور ترین سیاسی رہنما،عالم کی سب سے بڑی مختلف المذہبی سیکولر جمہوریت بھارت کی تاریخ کے بدترین منافرتی وزیر اعظم شری نریندر دامودر مودی کی طرف سے، صرف چار گھنٹہ مہلت والے،دیش بھر میں لاگو کئے لاک ڈاؤن دوران سے، بھارت کے ایک حصے کے لاکھوں مزدور دوسرے حصہ میں مصروف معاش جو تھے، جب اپنے اپنے بال بچوں،اعزہ و اقرباء کے پاس پہنچنے ہزاروں کلومیٹر کا سفر پیدل ہی طہ کرنے لگے تھے۔ تو اس وقت دنیا شاہد ہے بھارت کے ہم مسلمانوں نے، رمضان کے مبارک مہینے میں،خود بھوکے پیاسے رہتے ہوئے بھی، کروڑوں پرواسی مزدوروں کو نہ صرف شربت پانی پلائے اور بسکٹ فروٹ کھلائے تھے۔
بلکہ ننگے پیر چلتے ان مزدوروں کو چپل و کپڑے تک مہیا کروائے تھے اور یہ سب ان ایام ہورہا تھا جب بھارت پر حکومت کررہی سنگھی مودی حکومت، کوونا وبا بھارت میں پھیلنے سے بچانے اپنی حکومتی ناکامی رعایا سے چھپانے، اپنے سرکاری بھونیو بکاؤ میڈیا پر 24/7 مسلسل چلائے جانے والے نیوز میں، چانک دئش بھر میں نافذ کئے لاک ڈاؤن سے، تبلیغی مرکز میں پھنسے ہوئے، ہزاروں دئش واسی مسلمانوں کو دکھاتے ہوئے،کورونا وبا پھیلانے کے ذمہ داروں مسلمانوں کو ٹہرائے جاتے ہوئے، دئش واسیوں میں مسلم منافرت پھیلائی جارہی تھی۔ اس وقت کسی ایک مسلمان نے بھی انسانیت کی مدد کرتے ہوئے
، پرواسی مزدوروں سے مذہب ذات برادری پوچھی تھی اور نہ ہی ان سے اللہ اکبر کہنے کو کہا تھا۔ یہ مذہبی منافرت والی پست ذہنی ،اگر اس دنیا میں کوئی دکھا سکتا ہے یا دکھا رہا ہے تو وہ صرف اور صرف، ہزاروں سالہ ویدک سناتن دھرم میں، اپنی ھندو مذہبی شناخت رکھنے والے، سنگھی ذہنیت آرایس ایس اور اس سے جڑی مذہبی شدت پسند تنظیمی اکائیاں ہیں۔جو لوگوں سے جمع کئے چندے کو بھی، نہ صرف ذات دھرم دیکھے تقسیم کیا کرتے ہیں بالکہ بے شرم بنے، جئے شری رام کا نعرہ لگوا کر دیتے پائے جاتے ہزاروں سالہ آسمانی ویدک سناتن دھرم کو بدنام و رسوا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
مہاراشترا ممبئی کے مشہور کینسر ہاسپیٹل کے باہر مریضوں کے رشتہ داروں کے درمیان کسی سنگھی این جی او کی طرف سے، ایک وقت کا کھانا تقسیم کرتے وقت جس ڈھٹائی سے منتظم این جی او کی طرف سے صرف پچاس ساٹھ روپئیے کے کھانے کے لئے اپنے مذہبی اقدار کے خلاف جے شری رام بلوانے کی ڈھٹائی اور جئے شری رام نہ بولنے والوں کی نہ صرف فری کھانے سے محروم کئے جانے کا واقعہ بالکہ الٹا اسکی تذلیل کرتا منظر وائرل ہونے کے بعد ہو سکتا ہے، اس سنگھی این جی او کی طرف سے کوئی لولا لنگڑا بہانہ سامنے آئے
لیکن اس ویڈیو کلپ سے ایک بار 1400 ملین دیش واسیوں پر اظہر من الشمس کی طرح یہ بات وآضح ہوچکی پے کہ پست ذہنی مذہبی منافرت سے سرشار یہ چھوٹی سوچ والے سنگھی ذہنیت لوگ، اپنے اس چندی چوری جیسی نفرتی حرکتوں سے، عوام کے اذہان میں یہ بات پکے طور بٹھا رہے ہیں کہ اسلام دھرم کتنا مہان ہے جو انسانیت کے نام لاکھوں روپئیے علاج معالجے کے اوپر لٹاتے ہوئے بھی،مذہب پوچھ کر یا اللہ اکبر کا نعرہ لگواکر انسانیت کی مدد نہیں کرتا ہے۔ یہ پست ذہنی صرف اور صرف اس مہان بھارت دیش میں، پست ذہنیت سوچ والے سنگھی این جی اور ہی کرسکتے ہیں۔ کینسر ہاسپیٹل سنگھی این جی اوز کی طرف سے اس شرمناک واقعہ کے منظر عام آنے پر،سائبر میڈیا پر،ایسے بے شمار ویڈیو کلپ کی بھرمار سے، ھندو سماج کو شرمسار ہونا پڑ رہا ہے جہان مسلم سماج کے فردی ذاتی فری تقسیم کھانے دوران برملا کہتے دکھایا گیا ہے
کہ آپ ھندوؤں کو، مسلمانوں کآ کلمہ، اللہ اکبر کہنے کی ضرورت نہیں،”آپ بھوکے ہیں، سو پیٹ بھرنے فری کھانا لیجائیے”۔ یہاں تک کہ کسی حیدر آبادی این جی او کی طرف سے کسی ھندو مریض کو آپریشن کے لئے،ایک لاکھ روپیہ عطیہ دیتے وقت بھی، صاف صاف یہ کہتے ہوئے کہ “ہم مسلمان ذات برادری دیکھ کر نہیں، انسانیت کے ناطے دکھی انسانیت کی مدد کیاکرتے ہیں”،ایسا کرارا طمانچہ سنگھی ای جی اوز کے منھ پر مارتے ہوئے سنگھی ھندو این جی اوز کو شرمسار کیا گیا ہے کہ اگر 1400 ملین آبادی والے سناتن دھرمی ھندوؤں کو، اگر رتی برابر بھی غیرت موجود ہے تو آج سے ان منافرتی سنگھی این جی اور کا مقاطعہ کا اعلان کردیں گے۔
اور ہزاروں سالہ آسمانی ویدک دھرم اور ایشور اللہ کے آخری دود کل کی اوتار رشی منی یا رحمت اللعالمین پیغمبر حضرت محمد ﷺ کے دین اسلام کے درمیان مشترکہ پائے جانے والے آسمانی ویدک احکامات پر اتفاق کئے،دونوں فریق سناتن دھرم اور اسلام مل جل کر ہزاروں سالہ مختلف المذہنی چمنستان بھارت کی سیکیولر اقدار کو آگے بڑھاتے ہوئے، اسے واقعتاً “سب کاساتھ سب کا وکاس” والی سوچ کے ساتھ، بھارت کو وشؤگرو بنانے کی فکریں کی جائیں۔وما علینا الا البلاغ
مذہب دیکھ کر یا جئے شری بلواکر، انسانیت کی خدمت کرنا،پشت ذہن سنگھی سوچ، اسے تمام 1400 ملین سیکیولر بھارت واسی باشندے بالکیہ مسترد کرینا چاہئیے