20

صحافیوں کے خلاف جرائم کرنے والوں کا محاسبہ ضروری !

صحافیوں کے خلاف جرائم کرنے والوں کا محاسبہ ضروری !

دنیا بھر کی طر ح پا کستان میں بھی آزادی صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کا دن بڑے جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے ، اس کے باجودآزادی صحافت مل پارہی ہے نہ ہی صحافیوں کو تحفظ حاصل ہو رہا ہے ، پاکستان میں صحافت اور صحافیوں کے لیے صورتِ حال بد تر سے بد تر ہی ہو تی جارہی ہے،ایک طرف انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں پاکستانی صحافیوں پر حملوں کی شدیدمذمت کر رہی ہیںاورصحافیوں پر حکومت اور مختلف دیکھی، ان دیکھی قوتوں کی جانب سے طرح طرح کی بندشوں، پابندیوں کو اجاگر کر رہی ہیںتو دوسری جانب اہل صحافت کے قابل اصلاح کردار کی نشاندہی بھی کررہی ہیں ،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحافت کسی دور میں ہی حق اور سچ کی آواز ہوتی تھی، جو کہ اب کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی ہے، لیکن جو کچھ رہ گئی ہے، وہ بھی جبر کا سامنا کررہی ہے۔
پا کستان میں کبھی آزاد صحافت رہی ہے نہ ہی صحافی کو کبھی آزادانہ کام کر نے دیا گیا ہے ، گر کوئی حق سچ کی بات کر تا ہے یا لکھتا ہے تو اسے دھمکا یا جاتا ہے ، تشدت کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور دوسروں کیلئے نشان عبرت بنایا جاتا ہے ، اس پر ستم طریفی ہے کہ صحافیوں کے خلاف جرائم میں ملوث عناصر انصاف کے کٹہرے تک بھی پہنچ نہیں پاتے ہیں، پاکستان میںایسا نہیں کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے قوانین موجود نہیں، قوانین سارے ہی مو جود ہیں ،لیکن ان قوانین پر عمل درآمد کی صورتِ حال انتہائی ناقص ہے ، اس کے باوجود حکو مت دعوئیدار ہے کہ آزدی صحافت کے ساتھ صحافی کو مکمل تحفظ فر ہم کر نے کی پوری کوشش کی جارہی ہے ،جبکہ زمینی حقائق بالکل بر عکس دکھائی دیتے ہیں۔
یہ بات نہایت تشویش ناک ہے کہ پاکستان اُن چند ممالک میں شامل ہے کہ جہاں پر صحافیوں کے لیے کام کرنا انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے،اس حوا لے سے ایک رپورٹ کے مطابق 2000ء سے 2022ء کے دوران پاکستان میں 150 صحافی قتل ہوئے ،مگر صرف دو مجرموں کو سزا ہوئی ، جبکہ رواں سال فریڈم نیٹ ورک نے 2024ء کو صحافیوں کے لیے پاکستان کا مہلک ترین سال قرار دیا ہے، اس سال میں 6 صحافیوں کو قتل کیا گیا اور 11 پر قاتلانہ حملے ہوئے ہیں، اس طرح ہی 2023ء سے 2024ء کے دوران ملک بھر میں صحافیوں کے خلاف 57 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں،اس حوالے سے سندھ میں 21، پنجاب میں 13، اسلام آباد میں 12، خیبر پختون خوا میں 7، اور بلوچستان میں 2 واقعات شامل ہیں ۔
یہ صورتِ حال واضح طور پر اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان میں صحافت اور صحافی دونوں ہی انتہائی مشکلات سے دوچار ہیں، اس مقدس پیشے کو تحفظ فراہم کرنا نہ صرف حکو مت کی قانونی ذمے داری ہے ،بلکہ ایک معاشرتی اور اخلاقی فریضہ بھی ہے، لیکن حکو مت اپنی ذمہ داریاں پوری کر نے کے بجائے انہیں جکڑنے اور پابند کرنے کے اقدامات کر نے میں لگی ہوئی ہے ، حکو مت وہی کچھ سننے اور پڑھنے کی آزادی دینا چاہتی ہے، جوکہ اسے مناسب اور بھلی لگے، اس کیلئے اخبارات کی ترسیل میں رکاوٹیں ڈالنے، میڈیا ہاوسز کو اشتہارات کی بندش کا کہہ کر دھمکانے، ایسے ٹیلی وژن چینلز جو حزبِ اختلاف کو اپنا ‘ایئر ٹائم’ دیتے ہیں ان کی نشریات کو جام کرنے کے سارے ہی حر بے آزمائے جارہے ہیں

،اس کے ساتھ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بھی ایسا مواد کنٹرول کرنے کی پیش بندی کی جا رہی ہے، جو کہ حکومت اور مقتدرہ کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے ، اس سے اختلاف رکھنے والے کو ملک دشمن قرار دے دیا جاتا ہے ، سرے راہ اٹھوا لیا جاتا ہے اور نشان عبر ت بنا دیا جاتا ہے ۔
یہ درست رویہ ہے نہ ہی صحت مند رحجان کو فروغ دیتاہے ، بلکہ شک و شبہات میں اضافہ ہی کر تا ہے اور اس جانب تو جہ دلاتا ہے کہ کچھ توایسا ضرورہورہا ہے کہ جس کی پردہ داری ہے، اس سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزیدالجھنے کا ہی اندیشہ ہے، حکومت کو چا ہئے کہ اپنی روش بد لے اور میڈیا کی آزادی سلب کرنے کے متعلق اٹھنے والی اندرونی اور بیرونی مختلف آوازوں پر سنجیدگی سے غور کرے، حکومتی سطح پر ایسی پالیسیاں ترتیب دینے کی ضرورت ہے کہ جن سے تحریر و تقریر کی آزادی ممکن ہو سکے

،پاکستان کا امیج عالمی سطح پر بہتر بنانے اور بعض پابندیاں ہٹوانے کے لئے بھی ازحد ضروری ہے کہ درست سمت میں اقدامات کیے جائیں، کیونکہ اس ضمن میں ہیومن رائٹس واچ ایشیا کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں پر حملوں کی تعداد اور اس متعلق صورتِ حال انتہائی ابتر ہے، اس تنظیم نے زور دیا ہے کہ پاکستانی حکام صحافیوں کو اٹھانے ، تشدت کر نے اور حملے کر نے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ صحافی بلا خوف و خطر اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے سکیں ،حکو مت جب تک صحافیوں کے خلاف جرائم کرنے والوں کا محاسبہ نہیں کر ے گی ،اس وقت تک صحافت آزاد ہو گی نہ ہی صحافی کی زندگی کوئی تبدیلی لائی جاسکے گی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں