جو افریقی ملک میں ممکن ہے وہ ھند و پاک بنگلہ دیش میں کیوں کر ممکن نہیں ہوسکتا ہے؟
۔ ابن بھٹکلی
۔ +966562677707
ھندو و پاک بنگلہ دئش کے اکثر گاؤں شہروں میں قائم مکاتب، و جامعات میں، زکاة و صدقات پر پلے بڑھے اور تعلیم دلوائے تیارکر دئے گئے علماء کرام، جب مدرسوں اور مسجدوں میں کم تنخواہ پر معمور ہوتے ہیں تو وہ ذہنی سوچ اتنے پست ہوتے ہیں کہ محلے کے امراء کے سامنے لب کشائی کی ہمت تک نہیں کر پاتے ہیں۔ اوپر سےان امراء کے دئیے تحفے تحائف نہ انکار کئے بنتے ہیں اور نہ قبول تحائف بعد،انکے خلاف لب کشائی کی ہمت وہ جٹا پاتے ہیں۔ ایسے پس منظر دینی تعلیم ماحول میں، عالم کا غریب ملک مشہور افریقہ کے جوہانسبرگ کے اس مدرسہ کی تفصیل اپنے عزیر مولوی سمعان خلیفہ استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے روئداد سفر نامہ میں پڑھ کر، ہم حیرت و استعجاب کے پیکر بنے مضمون پڑھتے ہی رہ گئے۔
سوچا کیوں نہ اسے اپنے لاتعداد قارئین کے اذہان تک پہنچائیں۔ اسی جذبہ کے ساتھ کہ کاش مستقبل قریب میں ہم اپنے ھندو و پاک بنگلہ دیش میں، ایسے جدت پسند دوستانہ ماحول والے پس منظر میں، اپنی تمام تر خود داریوں مختاری برقرار رکھے عالم دین و داعی دین کے دستے نکلتے دیکھ پائیں گے۔ انشاءاللہ ومالتوفیق الا باللہ
دنیا کے مدرسوں میں ایسا بھی مدرسہ ہے
اکتوبر 31, 2024
محمد سمعان خلیفہ ندوی استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل کرناٹک
آج شام ہمارے میزبان ہمیں جوہانسبرگ سے چالیس کیلومیٹر دور، روشنی اور Vereeniging کے قریب Dedeur نامی مقام پر لے گئے اور بتایا کہ یہاں ایک مدرسے کی زیارت کرنی ہے اور یہیں مولانا خلیل صاحب کے دو صاحب زادے سعد اللہ اور احمد اللہ زیر تعلیم ہیں، پہلے سے مدرسے کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں بتایا گیا تھا، اس لیے ہم اس کو ایک عام مدرسہ سمجھنے کی غلطی کر بیٹھے، پھر جب مدرسے کے باب الداخلہ پر پہنچے تو مدرسہ اشرف العلوم جلال آبادِ صغیر کا بورڈ آویزاں دیکھا تو قدرے تعجب ہوا،
مگر آگے چل کر اس میں حیرت اور مسرت کا امتزاج ہوگیا۔ مہتمم صاحب، اساتذہ وطلبہ ہمارے انتظار میں تھے، ہم گاڑی سے اترے تو فورا بساط سجی، مگر یہ کوئی ناؤ نوش کی بساط نہیں تھی، بلکہ ہائی جمپ، مارشل لا، گھوڑ سواری، تیر اندازی، رسہ کشی اور باکسنگ کے لیے سجائی گئی بساط تھی، بیس پچیس منٹ میں اس پھرتی اور چستی کے ساتھ سب کچھ دکھایا گیا کہ یقین کر پانا ہی مشکل ہورہا تھا کہ کہ یہ مدرسہ کا میدان ہے یا پہلوانوں کی جولاں گاہ۔ اور سب کچھ کرتے پائجامے اور ٹوپی کے ساتھ۔
یہاں باکسنگ کے لیے میدان بھی ہے اور سوئمنگ کے لیے تالاب بھی۔ ورزش کا انتظام بھی اور ہفتہ واری دوڑ کے مقابلوں کا اہتمام بھی۔ تیروں کا نشانہ بھی سکھایا جاتا ہے اور گھوڑوں کی سواری بھی۔ جمپنگ کے لیے بڑے بڑے گڑھے کھود کر اس میں اسپرنگ لگائے گئے ہیں، جن پر اچھل کود خود ایک تفریح کا سامان ہے اور نشاطِ طبع کا ذریعہ۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ طلبہ کو کھانا بہترین فراہم کیا جاتا ہے اور وہ بھی زکات یا صدقات کا نہیں۔ نیز ان کو خود کفیل بنانے کے لیے کاشت کاری کے علاوہ مختلف ہنر، cheese, cream, وغیرہ بنانے کے طریقے بھی سکھائے جاتے ہیں۔
کھیل ختم ہوا، پل بھر میں طلبہ مسجد پہنچ گئے، نہ کوئی شور شرابہ، صدائے ہنگامہ اور نہ ہانکے جانے کی کوئی چیخ وپکار۔ مسجد میں بھی ایک پرسکون ماحول، سب پر وقار اور سکینت کی چادر تنی ہوئی۔ آپس میں عدم اختلاط کے پیش نظر ہر ایک کو مسجد میں علاحدہ بٹھایا جاتا ہے، عشاء کے بعد جلد سونا اور علی الصباح چار بجے اٹھنا ان بچوں کا معمول ہے، کسی کی کوئی تہجد نہیں چھوٹتی، تہجد کے موقع پر مسجد بھری ہوئی ہوتی ہے۔ موبائل فون پر مکمل پابندی ہے اور عملا اس کا نفاذ بھی۔ دور کے طلبہ کے لیے ہر ہفتے اتوار کے دن صبح کے موقع پر اپنے والدین سے بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
اٹھارہ گھنٹے تعلیم وتربیت کا ماحول اور وقت کی پابندی۔ ایک منٹ کے ضیاع سے بھی بچایا جاتا ہے۔ ہر طالب علم کا ریکارڈ محفوظ رہتا ہے، سنیچر کے روز ان کی ہفتے بھر کی کارکردگی کا پیغام ان کے گھر پہنچ جاتا ہے، قریب کے طلبہ ڈیڑھ دن کی ہفتہ واری تعطیل میں گھر روانہ ہوتے ہیں اور بقیہ طلبہ مدرسے ہی میں مقیم۔
سو طلبہ ہیں اور تیرہ اساتذہ، حفظ کے چھ درجات ہیں اور ان کی رہائش کا علاحدہ انتظام۔ کسی کو ایک دوسرے کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ عالمیت کے درجات میں دورے تک تعلیم ہوتی ہے۔
تمام اساتذہ کے لیے کوارٹرس ہیں۔ اساتذہ بھی چاق وچوبند، اپنے فرائض کی ادائی میں نشیط اور چوکس۔
طلبہ کا دار الاقامہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، ہر ہال میں چوبیس طلبہ اور ایک نگراں۔ اوپر نیچے تخت کا نظم۔
ہال ہی کے ایک کنارے علاحدہ بیت الخلا اور وضو خانہ وغسل خانہ۔ اور سب سے بڑی چیز تمام بیت الخلا انتہائی صاف ستھرے، مطبخ اور مذبح خانہ بھی صاف ستھرا۔ ساؤنڈ پروف شیشوں کی دیواروں کے ساتھ درجوں کا نظم کہ ایک جگہ بیٹھ کر تمام درجات اور بچوں کی حرکات وسکنات پر نظر بھی رکھی جائے اور ایک درجے کی آواز دوسرے درجے تک پہنچ بھی نہ پائے۔
ایک نگراں پوری رات تمام دار الاقاموں کی نگرانی پر مامور، نیز مسجد میں تین اساتذہ مکمل نگرانی کے لیے اور مطبخ میں بھی علاحدہ نگرانی کا نظم۔
بچوں کے کپڑے دھونے کے لیے واشنگ لاونڈری اور اس کے ذمے دار بھی مقرر، داخلی ملبوسات (under garments) طلبہ خود دھوتے ہیں اور دیگر ملبوسات یہاں لاکر جمع کرتے ہیں۔
مدرسے کے قیام پر پچیس سال ہوگئے۔ بانی اور مہتمم مفتی ہاشم بوڈا صاحب مد ظلہ العالی ہیں، حضرت مسیح الامت کے مجاز اور تربیت یافتہ۔ جلال آباد کا عکس جمیل یہاں دکھانے کے متمنی، ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں۔ سفید ریش۔ پرنور چہرہ۔ چھریرا بدن مگر عزائم فولادی۔ عقابی نگاہ مدرسے کے ایک ایک گوشے پر۔ اخلاص اور انکسار کا پیکر، اپنی دھن کے پکے۔ گفتگو میں متواضع اور جستجو میں سرگرم۔
مہتمم صاحب نے اسی قدر تیزی اور پھرتی کے ساتھ جرمنی سے درآمد کی ہوئی ایک جناتی پرنٹنگ مشین کا دیدار بھی کرایا جو دو منٹ میں ایک کتاب پرنٹ کردیتی ہے اور جس کے اندر دس لاکھ کتابوں کی طباعت کی استعداد موجود ہے۔ ایک عدد تجربہ بھی کرکے اس کی کرامت کا مشاہدہ کیا گیا۔
درجات کے ساتھ کتب خانہ اور دار الافتا بھی موجود، جہاں نکاح کے رجسٹریشن کا بھی نظم ہے۔ بستی کی اموات کے لیے کفن کا انتظام بھی مدرسے سے کیا جاتا ہے۔
مہتمم صاحب نے اپنے دولت کدے پر عشائیہ کا نظم کیا تھا سو اس سے فارغ ہوئے، انتہائی محبت کے ساتھ انھوں نے ضیافت کی اور مہمانوں کو اپنے طلبہ سے مخاطب ہونے کا موقع بھی دیا۔ ہم نے مختصرا حضرت مفکر اسلام علیہ الرحمۃ کی کچھ باتیں “وماکان المؤمنون لینفروا کافۃ” الآیۃ کے حوالے سے عرض کیں جن میں ایک طالب علم کے فرائض اور ذمے داریوں پر روشنی ڈالی اور مولانا موسیٰ صاحب نے محبت الٰہی کے حوالے سے کچھ نصیحتیں کیں اور دلوں کو گرمایا۔
الغرض اس مدرسے کے عجائبات کو دیکھ کر بہت کچھ خوشی کا احساس ہوا اور بڑی قدر بھی ہوئی اور پتہ چلا کہ آدمی دھن کا پکا ہو تو کس طرح جنگل میں منگل کا سماں پیدا کرسکتا ہے۔
سفرنامہ جنوبی افریقہ 6
سخنؔ حجازی۔ Dedeur۔ جنوبی افریقہ۔ آٹھ اکتوبر 2024