ماں کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ تو، استاد بچوں کے دوسرے والدین 24

ھبل ببل، شیشہ یعنے حقہ پینا،یاجدت پسند الکٹرونک ویپنگ ڈیوائس

ھبل ببل، شیشہ یعنے حقہ پینا،یاجدت پسند الکٹرونک ویپنگ ڈیوائس

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

کل کے بڑے بوڑھے بوڑھیوں کا شغل عام حقہ زنی جدت پسند زمانہ کی جدت پسندی اپنے میں سموئے، ایک نئے انداز نئے رنگ ترنگ نئے فواکہہ کی خوشبو کے ساتھ موجودہ دور کے شباب کی کمزوری بنتا جارہا ہے.کل جب گھر
کے بڑے بوڑھے وہی پرانے ناریل شیل کے بنے حقہ کے ہلکے ہلکے کش لئے،اپنے دکھ درد پریشانی کو جلا کر، دهووں کے مرغولوں میں اڑا رہے ہوتے تھے تو، ایک حد تک بات سمجھ میں آتی تھی. گھر والوں کو وہ حقہ کی بدبودار مہک ناپسند رہتے ہوئے بھی، کبار سنی کے ان کے توضیع اوقات کی خاطر ان کی خدمت کے نام برداشت کر لیا کرتے تھے. لیکن موجودہ دور میں اس وبا نے، نئے زمانہ کے نئے تقاضوں کے ہم آہنگ، فیشن کے نام روشن مستقبل کے یہ چشم و چراغ شباب وقت کو کچھ اس طرح سے،

اپنے دام الفت میں جکڑ لیا ہے کہ انہیں اس عفوان شباب کےابتدائی دنوں میں، جب انہوں نے اس دنیا کی رعنائیوں سے ابھی لطف اندوز ہونا شروع بھی نہیں کیا یے، چٹانوں کو اپنے بلند عزائم سے توڑ پهوڑ کر پانی کے چشمے جاری کرنے کی عمر میں، اس شغل بے جا میں، اپنا قیمتی وقت برباد کر،خود اپنے ہاتھوں اپنی صحت کو حقہ کے زہر آلود دهوئیں کے مرغولوں میں اڑانے کی حماقت شروع کردی ہے.
جس ملک نے اپنی قومی اسمبلی میں کلیةً حرام ( نص شرعی کے باوجود) ایک غیر مسلم ممبر اسمبلی نے شراب پر پابندی کا بل پیش کیا تو پوری پارلمنٹ نے صوتی آواز سے بل کو نا منظور کردیا، اب مزید کیا کہا جاٸے جس کو اللہ ہدایت نہ دے اسے کوٸ ہدایت نہیں ملتی،
ولو ان اھل القریٰ آمنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکات من السماء والاٴرض ولکن کذبوا فاٴخذناھم بما کانوا یکسبون
اگر بستی کے لوگ ایمان لاتے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرلیتے ہم ضرور ان پر آسمان و زمین سے برکتیں کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلایا، پھر ہم نے انہیں پکڑلیا اس بات پرجو کچھ انہوں نے کماٸ کی (مفہوم آیت)
حقہ کشی، چلم کشی شیشہ کَشی اور اسی قبیل کی بہت سی باتیں ہیں جس کے لٸے نص شرعی واضح نہیں، لیکن بعض صوبائی حکومتوں نے اپنے شہروں میں جدت پسندی کے نام سے دھڑلے سے چلائے جاریے حقہ کیفیز پر پابندی عائد کی ہوئی ہے،تاکہ نوجوان نسل انسانی کو اس زہر آلود فیشن سے آمان میں رکھا جاسکے لیکن پھر آجکل کے بانکے نوجوان، بیرون ملک قیام پزیر کسی رشتہ دار کے خالی گھروں کی دیکھ بھال کے بہانے،ان خالی گھروں کی چابیاں حاصل کئے،صبح پو پھٹنے سے پہلے تک ان خالی گھروں میں حقہ زنی شوق کو پورا کرتے پائے جاتے ہیں
اب تو تمباکو کی نئی مصنوعات IQOS کو حال ہی میں فروخت کیا جانے لگا ہے جس سے نوجوانوں میں ای سگریٹ کی وبا کے درمیان ایک اور نیکوٹین ڈیلیوری ڈیوائس متعارف کرائے جانے کے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔تمباکو کی مصنوعات، وہ الیکٹرانک آلات ہیں جو روایتی سگریٹ کی طرح تمباکو کو جلانے کے بجائے تمباکو کے پتوں کو گرم کرکے سانس لینے کے قابل ایروسول تیار کرتے ہیں۔
نیا الکٹرونک ویپنگ ڈیوائس سگریٹ نوشی سے کم نقصان دہ ہے، لیکن یہ پھر بھی محفوظ نہیں ہے۔ ای سگریٹ نیکوٹین (تمباکو سے اخذ کردہ)، ذائقے اور دیگر کیمیکلز کو گرم کرتے ہیں تاکہ ایک ایروسول بنایا جا سکے جسے آپ سانس لیتے ہیں۔ تمباکو کے باقاعدہ سگریٹ میں 7000 کیمیکل ہوتے ہیں جن میں سے اکثر زہریلے ہوتے ہیں۔
جبکہ IQOS ایک الیکٹرانک ڈیوائس ہے، FDA نے اسے سگریٹ کے طور پر درجہ بندی کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ پروڈکٹ روایتی سگریٹ کے لئے تمام موجودہ پابندیوں کے تابع ہے۔ ایسے الکٹرونک پروڈکٹ کی مارکیٹنگ صرف ایک سال کے دوران ہائی اسکول والوں میں ای سگریٹ کے استعمال میں 78% اور مڈل اسکول والوں میں 48% اضافہ ہوا، ٹوبیکو کنٹرول میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق ان خدشات کو واضح کرتی ہے: “جس طرح ای سگریٹ، خاص طور پر جو کہ ایک جدید، ہائی ٹیک امیج اور نقصان میں کمی اور ‘دھواں کے بغیر’ پیغامات کے ساتھ فروغ پاتی ہے، نوعمروں کو اپیل کرتی ہے، یہ امکان ہے کہ IQOS اسی طرح سے مارکیٹنگ کی گئی، نوعمروں کو بھی اپیل کرے گی۔”
دراصل عالمی میڈیکل مافیا اپنے کروڑوں کی دوائی صنعت کو، زندہ و تابندہ رکھنے کے لئے،پہلے سے مارکیٹ میں موجود انسانی صحت کے لئے نقصان دہ، عادت خبیثہ سے بہتر، کم نقصان دہ کوئی نیا پروڈکٹ مارکیٹ میں بڑے زور و شور سے متعارف کراتے رہتے ہیں اور کچھ وقفہ بعد جب علمی آگہی اس پروڈکٹ کے نقصانات سے نوجوان نسل کو بچانے پر زور دینے لگتی ہے تب پھر دوسرا پروڈکٹ مارکیٹ میں لانچ کیا جاتا ہے اور یوں اچھی بھلی صحت مند انسانیت کو غلط راہ پر ڈالتے ہوئے، انہیں پہلے بیمار کیا جاتا ہے اور پھر انہیں صحت یاب ہونے دوائی بیچ ان سے پیسے لوٹے جاتے ہیں
آج کل کے تعلیم یافتہ نوجوان جانتے بوجهتے اپنی صحت کو بربادکرنے والے، کینسر جیسی بیماری کو اپنے گلے لگانے والے، اس شغل خبیسہ کے مرتکب ہوا کرتے ہیں مرنا تو ہر کسی کو ہے ہی، لیکن جان بوجھ کر، کینسر جیسی مہلک بیماری کو اپنے گلے لگانا اور اس بیماری کو اپنی بیوی بچوں میں ہیری ڈیٹری منتقل کرنے کے بعد انہیں تڑپنے کے لئے چهوڑ، کمسنی میں خود مر جانا،کیا یہ ایک قسم کی خودکشی والی موت کے مترادف عمل نہیں ہے؟ کیا ایسی خودکشی والی موت کے بعد، تا ابد رہنے والی اس آخرت کی زندگی میں بهی چین و سکون سے رہنا میسر ہوگا؟
یہ سگریٹ نوشی کا عمل ہو

، حقہ زنی کا عمل تحقیق نے اس بات کو سائینسی اعتبار سے ثابت کیا ہے کہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکهتے اس اعمال خبیثہ کے مرتکب نوجوان قبل شادی اس خبیث عمل سے توبہ بھی کرلیتے ہیں تب بھی ان کے خون میں سرایت کرجاچکا یہ زہر، بعد شادی ہونے والے ان کے اپنے بچوں میں منتقل پایا جاتا پے. کیا اب بھی یہ پڑھے لکھے نوجوان اپنی اس لغزش شباب کا خمیازہ خود انکی اپنی اولاد کو ہورہا ہو؟ اور انہیں اس کینسر جیسی موذی بیماری میں جکڑا تڑپتا اپنے بڑھاپے میں وہ دیکھنے کی ہمت کیا اپنے میں پاتے ہیں؟
اور مقامات پر اکثر شباب کو ان شغل خبیثہ کی وجہ کینسر سے مرتے لوگوں نے دیکھا ہوگا لیکن کیا آہل بهٹکل نے اپنے بانکے جوان کو عفوان شباب میں سپرد گور نہیں کیا یے.؟ خدارا اس تمباکونوشی، سگریٹ نوشی یاکہ حقہ زنی کے فعل خبیث سے، اپنا دامن بچا لیجئے. اور اپنا اور اپنی آل کا مستقبل تاریک تر بننے سے بچائیے وماعلینا الا البلاغ

کسی بھی قسم کی تمباکو نوشی سے، اپنی جان جوکھم میں ڈالنے والے گویا خودکشی کی موت کی طرف قدم بڑھارہے ہوتے ہیں

ھبل ببل، شیشہ یعنے حقہ زنی،یاجدت پسند الکٹرونک ویپنگ ڈیوائس سے،قدرت کی عطا کی ہوئی،اپنی اچھی بھلی صحت کو،کینسر زد بیماری کا شکار بنانے والوں میں اکثریت اعلی تعلیم یافتگان کی ہی ہوتی ہے ابن بھٹکلی /

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں