سیاسی تنازع کا سیاسی حل ہی نکلا جائے !
ملک میں جب بھی کوئی بڑا سیاسی مسئلہ سر اٹھاتا ہے تو پارلیمان کے اندر موجود جماعتیں پارلیمنٹ کے بجائے سڑکوں یا عدالتوں کا ہی رخ کرتی ہیں،اس کا انہیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے،لیکن اس بری روایت کوسیاسی قیادت چھورنے کیلئے تیار نظر ہی نہیں آرہی ہے اور پا رلیمانی معاملات کو مسلسل سڑکوں و عدالتوںمیںحل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، تحریک انصاف نے ایک بار پھر چو بیس نو مبر کو ایک بڑے احتجاج کی کال دیے دی ہے، اس سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے سیاسی قیادت سیاسی معاملات کو سیاسی طریقے سے حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں اور ان کی جگہ غیر سیاسی قو توں نے لے لی ہے۔
یہ بات کو ئی مانے نہ مانے کہ اس ملک میں جمہوری حکو مت برائے نام ہی رہ گئی ہے ،حکو مت بظاہر جمہوری ،مگر اس کے پیچھے بیٹھے لوگ غیر جمہوری ہیں ، اس لیے ہی جمہوری حکو مت کے نام پر غیر جمہوری رویئے دکھائی دیے رہے ہیں، ،اس صورت حال پر مو لا نا فضل الر حمن کا کہنا ہے کہ جمہوریت کی کمزوری میں سیاستدانوں کا برا کر دار رہا ہے ، انہوں نے ہمیشہ اپنے مفاد کیلئے جمہوریت پر سمجھو تہ کر کے جمہوریت کو نقصان ہی پہنچایا ہے، جبکہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا ہے
کہ ملک میں کہیں جمہوریت نہیں ہے ، میں حقیقی جمہوری آزادی کے لیے آخری دم تک لڑتا رہوں گا، لیکن یہ جنگ کسی ایک کی نہیں، پوری قوم کی ہے، اگر ہم آج اس ظلم و ستم کے خلاف کھڑے نہ ہوئے تو ہماری آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔اگر دیکھا جائے تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے تحر یک انصاف قیادت نے بڑے مجبور ہو کر ایک بڑے احتجاج کیلئے عوام کو با ہر سڑکوں پرنکلنے کی کال دیے ڈالی ہے ، اپنے حق کیلئے احتجاج کر نا ہرایک کا ہی جمہوری حق ہے، مگر ہمارے ہاں اس کی جائز حدود کو پھلانگنے کا عمومی رواج رہاہے، دورانِ احتجاج نہ تو نجی وسرکاری املاک کا کوئی خیال کیا جاتا ہے
نہ ہی عوامی حقوق کی کوئی پروا کی جاتی ہے،پچھلے کچھ عرصہ سے احتجاجی سرگرمیوں میں اضافے کے باعث شہریوں نے بے حد تکلیفیں اٹھائی ہیں‘ اب ایک اور احتجاج کی صورت میں عوام کیلئے وہی تکلیفیں عود کر آئیں گی، اوپر سے دہشت گردی کی نئی لہر کے باعث حالات انتہائی نا ساز گار ہیں،ان حالات میں توسیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی نظر آنی چاہئے ، لیکن اس کے بر عکس ہی سب کچھ ہو رہا ہے ،
ایک دوسرے کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جارہا ہے ، قومی مفاد کو چھوڑ کر ذاتیات کو تر جیح دیا جارہا ہے ،اس کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلیں گے؟اس ملک میں کسی کو بھی برے نتائج کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے ، ہر کوئی اپنے آپ کو درست اور دوسرے کو غلط سمجھ رہا ہے ، پی ٹی آئی کے پاس پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے، اس کے پاس حزب اختلاف کی قیادت کا منصب ہے، جبکہ اس کی ایک صوبے میں حکومت بھی ہے‘
اس مضبوط پارلیمانی پوزیشن کی حامل جماعت کیلئے اپنے مطالبات کیلئے بار بار سڑکوں پر آنے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے، اگردیکھا جائے تو مقتدرہ کی پشت پناہی کے بغیر سیاسی تنازعات کا حل سڑکوں پر احتجاج سے نکلتا بھی نہیں ہے،سیاسی جماعتوں کیلئے آپس میں بات چیت ہی ایک ایساذریعہ ہے کہ جس کے نتیجہ خیز ہونے کی کوئی امید رہتی ہے،اس کو چھوڑ کر سڑکوں پر احتجاج کیلئے نکلنا بے معنی ہی رہے گا، مگر تالی کبھی ایک ہاتھ سے بجتی ہے نہ ہی مذاکرات کی کبھی یکطرفہ خواہش کا ر گر ثابت ہوتی ہے،اس صورت میں ہی پیش رفت ممکن ہو سکتی ہے کہ جب حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی آگے بڑھیںاور ایک دوسرے کو اپنے مثبت رویئے سے باور کرائیں کہ مزکرات میں انتہائی سنجیدہ ہیں۔
اس سلسلے میں مناسب ہو گا کہ حکومت احتجاج سے قبل ہی اپنا ہاتھ آگے بڑھا ئے اور حزب اختلاف سے مذاکرات میں پہل کا عندیہ دیے،کھنچے کھنچے اور تنے تنے رہنے سے حکومت اور حزب اختلاف میں بات چیت کی پیشرفت کا کبھی کوئی امکان پیدا ہی نہیں ہو پائے گا، یہ صرف ایک دوسرے کولچک دکھانے اورخیر سگالی کا مظاہرہ کرنے سے ہو گا، اب تک اس کی صرف امید ہی کی جاسکتی ہے، کیونکہ بظاہر کوئی فریق بھی اپنی اَنا ترک کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آرہا ہے‘ مگر یہ ہی ان جماعتوں کے سیاسی شعور کا امتحان ہے،اگر اس سیاسی شعور کے امتحان میں کا میاب ہوئے تو حقیقی جمہوری آزادی بھی مل جائے گی اور جمہوری اقتدار بھی قائم رہے گا ، ورنہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ، سارے ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔