ماں کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ تو، استاد بچوں کے دوسرے والدین 21

چمنستان بھارت کوانسان دوست بنایا جائے

چمنستان بھارت کوانسان دوست بنایا جائے

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

قدرت کے نیم قانون میں دخل اندازی کرنے والی سرکار، چاہے وہ صدا گیروے کپڑے پہننے والے سادھو سنت یوگی بابا کی رام راجیہ سنگھی سرکار ہو یا خود کو بھگوان ایشور کا اوتار کہنے والے، مہان مودی جی کی رام راجیہ سنگھی سرکار۔ اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ، قدرت نے حضرت انسان کو اشرف المخلوقات اور دیگر تمام مخلوقات کو، ہم انسانوں کے استفادے کے لئے تخلیق کیا ہوا ہے، جہاں قدرت نے سہاکاری گھاس پوس کھانے والے تمام جانور گائے بھینس بیل بکری ہرن کے منھ میں چپٹے دانت رکھے، انہیں گوشت کھانے سے قاصر، صرف گھاس پوس کھانے لائق چھوڑا ہے،

وہیں کتے؛ بھیڑییے، شیر، بلی سمیت تمام اقسام کے درندوں کو، نوکیلے دانت عطا کئے انہیں صرف گوشت کھانے لائق ہی چھوڑا ہے اگر جنگل کا راجہ “میں بادشاہ ہوں اتنی محبت سے ہرن کا شکارکرگوشت کھانے کے بجائے، ہاتھی ہرن بارہ سنگھے جیسا، بغیر محنت کئے درختوں کے ہرے ہرے پتے پھل پھول ہی کھاونگا” یہ فیصلہ کرلے تو، نہ وہ کچھ پتے چبا کھا ہضم کیاکر پائیگا؟ اسے قدرت کے نیم قانون انوسار ماساہاری ہی بننا پڑیگا، ورنہ اسے تو بھوکا ہی مرنا پڑیگا۔ قدرت نے صرف حضرت انسان کے منھ میں گوشت کاٹ کھانے لائق نوکیلے دانت بھی جہاں دئیےہیں، وہیں مختلف اقسام پھل پھول، انواع اقسام ترکاری سبزیاں چبا ہضم کرتی صلاحیت والے چپٹے دانت بھی دئیے ہیں۔

ہزاروں سالہ آسمانی ویدک سناتن دھرم کی تعلیمات پر نظر ڈالیں تو حضرت انسان، شروع زمانے سے، نہ صرف مختلف اقسام جانوروں کو مار کھاتا پایا گیا ہے بالکہ مختلف وید گرنتھ اسمرتی، زبور بائبل، انجیل اور قرآن میں بھی، مختلف کھانے لائق جائز جانوروں کے گوشت کھانے والے احکام پائے گئے ہیں۔ ایسے میں ہم میں سے کچھ، اپنے آپ کو ایشور بھگوان کے اوتار سمجھنے والے وقت کے خدا بن بیٹھے،حکمران ایشور اللہ کی مخلوق گائے کو، اپنی ماتا سمان سمجھتے ہوئے، اسے کاٹ کھانے سے ہم انسانوں کو مانع رکھنا شروع کریں تو، اس دنیا کا نظام ہی تباہی و بربادی کا شکار ہونے لگے

۔ تاریخ کے اوراق میں کیا کبھی کسی نے یہ سنا ہے کہ کل تک بے ضرر سمجھے جانے والے گائے بیل، آج انسانیت کے لئے وبال جان بن گئے ہیں؟ ابھی سابقہ دس سالہ منافرتی سنگھی مودی یوگی رام راجیہ میں،جب سے مسلم دشمنی ہی میں، انکے منھ کا نوالہ بننے والے گائے بیل کو کاٹنا اور اسکا گوشت بیچنا ممنوع قرار پایا ہے دہلی سمیت ملک کے بڑے بڑے شہروں،گاؤں کے چوراہوں پر، جمع گائے بیل کے قہرسازی ایسی کہ حضرت انسان بھی، ان سے پناہ مانگتے نظر آتے ہیں۔ ایسا کوئی دن نہیں گزرتا ہوگا

کہ جب اس سنگھی حکومتی امتناع قانون ہی کی صورت، ان کی پرورش کھان پان اخراجات سے بچنے ہی کے لئے،دودھ دیتی گائے ماتا کو چھوڑ کر، باقی دودھ چھوڑی گائے بیل کو آوارہ سر راہ چھوڑنے ہی کی وجہ سے، عام راستوں اور شاہراؤں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے، کوئی نہ کوئی انسان مرنے سے رہ جاتا ہو۔ یہ بھی ایسے وقت ہورہا ہے جب اپنے آپ کو، دیش بھگت اور گؤماتا رکھشکھ بھگت کہتے نہ تھکنے والے، مودی یوگی کے سنگھی حکومتی سائے میں، بڑے ھندو پونجی پتیوں کے لائسنس یافتہ بوچڑ خانوں میں، روزانہ کی بنیاد پر،ہزاروں گائے بیل بھینس کا قتل عام کئے جاتے،

ان نام نہاد سناتن دھرمی ھندوؤں کےماتا پتاؤں کے گوشت کو، عرب کھاڑی ملکوں کے مسلمانوں کے منھ کا نوالہ بننے برآمد کئے جاتے، کروڑوں ڈالر کمائے جاتے ہیں۔ اگر وہیں ایک ملک ایک انتخاب کا نعرہ دینے والے سنگھی رام راجیہ میں، نہ صرف گائے بیل اور اس قبیل کے تمام جانوروں کا قتل عام ممنوع اور اس کا ماس بیف ایکسپورٹ بند کردیا جائے تو، تصور نہیں کیا جاسکتا کہ لاکھوں کروڑوں گائے بیل بھینسوں کے،شہر گاؤں کی سڑکوں شاہراؤں پر دندناتے پھرتے ماحول میں، حضرت انسان کچھ دن بھی سکھ چین شانتی کے ساتھ زندہ رہ پائے؟
عالم کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں ایک امتناعی قانون گؤ ماتا بیل بھینس کو کاٹنا بلکہ اسکا ماس ایکسپورٹ کرتا مکمل امتناہی قانون پاس کیا جائے، یا اس امتناعی قانون کو ہی ختم کیا جائے، اس سے کم از کم گؤماتا امتناع نام پر مسلم منافرتی سیاسی کھیل تو ختم ہوجائیگا۔ اور عرب کھاڑی دیش کے مسلمانوں کے منھ کا لقمہ ببنے والا ماس، بھارت واسی اپنے ملک میں کھاتے عیش کرتے پائے جائینگے

۔ ہم بھارت کے مسلمان، بغیر گؤماس کھائے ، بکرے مرغی مچھلی کھائے نہایت اطمینان سے زندہ رہتے پائے جائیں گے،لیکن اس امتناعی قانون کے چلتے ہزاروں دودھ چھوڑی گائے بیل سانڈ کو، انکی پرورش اخراجات سے بچنے، سر راہ انہیں چھوڑتے پس منظر میں، بھارت واسی سناتن دھرمی مائیں بہنیں دھرتی ماں پر،سکون سے چل پھر پائیں گی یہ دیکھنا اب اہل عقل فہم سناتن دھرمیوں کا کام ہے۔ وما التوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں