ماں کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ تو، استاد بچوں کے دوسرے والدین 8

خلیل الرحمن بھٹکلی واقعتاً خلیل الرحمن ہوگئے

خلیل الرحمن بھٹکلی واقعتاً خلیل الرحمن ہوگئے

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

سید خلیل الرحمن صاحب کا تعلق شہر بهٹکل سے یے. آزادی ہند سے دس ایک سال قبل شہر بهٹکل کے متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے ،قبل آزادی اس وقت، تعلیمی آگہی اتنی نہ تھی لیکن انہیں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا جنون تھا. اپنی تگ و دو محنت لگن سے شہر بهٹکل و اہل نائطہ کے پہلے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے کا اعزازحاصل کیا. بالکہ بھٹکل کے اکلوتے ایف سی اے بننے والے غالباً پہلے اور آخری شخص تھے اور مہیندرا اینڈ مہیندرا کمپنی کے چیف اکاؤنٹنٹ کے عہدے پر ایک عرصے تک فائز کام کرتے رہے.
محترم خلیل الرحمن صاحب قوم کے سیاسی لیڈر جناب عبدالقادر حافظکامرحوم کے قریبی ساتهیوں میں سے تھے. بمبئی میں رہتے ہوئے بھٹکل مسلم جماعت بمبئی اور فنڈا مالی کی سرپرستی کی. 1971 انجمن حامی المسلمین کی گولڈن جوبلی کے موقع پر خلیل صاحب کی بحیثیت کنوینئر خدمات کا قوم نے اعتراف کیا ہے.
ستر کے دہے کے اواخر میں، جب خلیج کے ریگزاروں سے باد بہاران پیٹرو ڈالر نے دنیا بھر کے غریب ممالک کو اپنی طرف راغب کیا تو 1979 میں ہی بمبئی مہیندرا کمپنی کی اتنی اچھی نوکری چهوڑ دوبئی کا رخ کیا. اور کامیاب رہے.جہان تک ہماری معلومات کا تعلق ہے محترم خلیل صاحب اپنے پیشہ میں اتنے مشاق و ماہر تھے کہ ان کےاستغفی دئیےدوبئی آنے کے باوجود، عالم کی سب سے بڑی جمہوریت ھندستان کی ماقبل آزادی سے مشہور مہیندرا اینڈ محی الدین کمپنی، جو ھندستان والوں کے لئے مہیندرا اینڈ مہیندرا بن چکی تھی،

انکی ایمان دارانہ اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے اعتراف میں، کئی سالوں تک اس عہدے پر کسی اور کا تقرر کرنے کے بجائے،اسی خالی رکھے، سال کے آواخر اپنے فائنل ایکونٹ کو، انہی سے نظر ثانی کروائے، انکے دستخطوں سے کام چلواتے رہے۔دوبئی میں اسوقت کی تجارتی شراکتی کمپنی عبداللطیف گلیداری جو اپنے کچھ غلط معشیتی فیصلوں سے قرضدار و کنگال ہونے کے قریب تھی،المحترم خلیل الرحمن مرحوم کی معشیتی سرپرستی میں، اپنے عالمی ریکارساز پام بیج ریزورٹ پلان کے ساتھ دوبارہ مستحکم ہوچکی ہے۔
دوبئی میں ستر کے اوائل ہی سے بهٹکلی احباب مصروف معاش تهے۔ 1973-74 ہی میں دوبئی میں بهٹکل مسلم جماعت قائم ہوچکی تھی. 1990 کے اوائل میں خلیج میں قائم مختلف جماعتوں پر مشتمل، بهٹکل مسلم خلیج کونسل قائم کرنے کا خواب ایس ایم خلیل صاحب ہی نے دیکھا تھا جس کے لئے انہوں نے مختلف خلیجی جماعتوں کے ذمہ داروں سے باہم صلاح مشورےکئے،”ارض مقدس کل مسلمین” منی کی وادی میں، پہلی بھٹکل مسلم خیلجی کانفرنس کا انعقاد کرتے ہوئے،بھٹکل مسلم خلیج کونسل کی شروعات کی تھی

۔ اور خلیجی ممالک میں قائم مختلف بھٹکلی جماعتوں کی مرکزی تنظیم،بھٹکل مسلم خلیج کونسل کا رابطہ آفس بھٹکل میں قائم کرتے ہوئے، اپنے مختلف طویل مدتی پروگرامات سے، بھٹکل و اطراف بھٹکل کی کثیر الآبادی مسلم قوم میں تعلیمی انقلاب بپا کیا تھا۔
1991 دہلی کی گدی پر کانگریس کے نرسمهاراو براجمان تھے. اپنی گرتی معشیت سے عالمی منڈی میں ہندستان کی ساکھ بری طرح خراب ہورہی تھی. بهٹکل جامعہ آباد احاطہ میں بهٹکل مسلم خلیج کونسل کی پہلی علاقائی کانفرنس کا پہلا دن تھا. افتتاحی تقریر میں خلیل الرحمن صاحب نے جو اس وقت بهٹکل مسلم خلیج کونسل کے سکریٹری جنرل بھی تھے، انہوں نے خلیج کے مختلف ملکوں میں مصروف معاش ہم تاجر احباب سے، جو اس کانفرنس میں شرکت کرنے وطن آئے ہوئے تهے. ایک عجیب درخواست کی تهی.
اپنی تقریر میں انہوں نے کہا تها بهٹکل کے،اسٹیت، سنڈیکیٹ، کینرا اور دیگر نیشنلائز بنکوں میں، قومی بهائیوں کے جو سو سوا کروڑ روپئے ان ایام ڈپازٹ رکھے ہوئے ہیں،وہ تمام کےتمام انڈین روپیس ایکاؤنٹ میں جمع ہیں. حکومت ہند کی اس وقت دی ہوئی سہولت کے مطابق بیرون ھند مصروف معاش تمام ایکاؤنٹ ہولڈر چاہیں تو اپنےاین آرآئی ایکاؤنٹ کو فورین کرنسی ایکاؤنٹ میں منتقل کر،رکھ سکتے ہیں. خلیل صاحب نے اس وقت کہا تھا. حکومت ہند کچھ دنوں میں ہندستانی روپیہ کی قیمت ڈالر کے مقابلے 30 فیصد تک گرا رہی یے. اگر آج کی مجلس میں شریک تمام نائطی احباب، ایک دو دن کے اندر، اپنے اپنے ایکاونٹ کو ہندستانی روپیہ سے ڈالر میں منتقل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں،

تو سوا سو کروڑ میں ایک سو کروڑ بھی ڈالر میں منتقل ہوجاتے ہیں تو،قوم کو بیٹھے بٹھائے،سو کروڑ کا تیس فیصد یعنی کم و بیش تیس کروڑ کا منافع ہو سکتا یے. اس وقت بہت کم لوگوں نےخلیل صاحب کی ہدایت پر عمل کیا تها. ہم بھی اس وقت عفوان شباب کے مزے لوٹ رہے تھے. ہمیں بھی اس وقت خلیل صاحب کی بات پر یقین کامل نہ تھا. تیسرے دن صبح کے انگریزی اخبار نے یہ خبر جان فضاء سنائی کہ حکومت ہند نے ڈالر کے مقابلے ہندستانی روپیہ کی قیمت 13 فیصد گهٹا دی یے. تعجب تو ہمیں ہوا ہندستانی حکومت کے مستقبل کے ہونے والے فیصلہ کا علم خلیل صاحب کو کیسے ہوا؟
اس دن محترم خلیل صاحب کی مسلمانوں کے بهٹکل اربن کوآپریٹیو بنک والوں کے ساتھ نششت تھی، اربن بنک میں فورین کرنسی یا این آر آئی اکاؤنٹ کی آس وقت تک سہولت نہ تھی. اس کےلئے ریزرو بنک کے طہ شدہ ٹارگیٹ کی ڈپازٹ اربن بنک کے پاس نہ تھی. اس نششت کے بعد خلیل صاحب ہی کی درخواست پر دوسرے نیشنلائز بنکوں سے برادران وطن نے، خطیر رقوم اربن بنک اکاؤنٹ منتقل کراتےہوئے، بهٹکل اربن کوآپریٹیو بنک کو، آج کا علاقےکا کامیاب ترین مسلم بنک مقام دلوانے میں، جوکامیابی حاصل کی تھی

اس کے لئے بھی تمسم تر سہرا مرحوم خلیل الرحمن صاحب کے سرجاتا ہے. اس دن اربن بنک نششت میں ہم بھی مدعو تھے. ہاتھ میں انگریزی کا اخبار لئے، ہم بهی میٹنگ میں شریک تهے. وقفہ سوالات کے دوران ہم نے ان کی 30 فیصد تک ہندستانی روپیہ کی قیمت گرائے جانے کی پیشینگوئی کے بارے میں اخبار میں آئی خبر، تیرہ فیصد گری قیمت بتا کر 30% کے بجائے 13% کے بارے میں پوچھا. تو انہوں نے بس اتنا کہا. “ینگ مین،ڈونٹ بی ٹو ہری، ایک دو دن اور انتظار کرو پتہ چل جائیگا.”
اس کے دوسرے دن کے اخبار میں مزید سترہ فیصد ہندستانی روپیہ کی گری قیمت نے، ہمیں ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا. ہم اخبار اٹھائے صبح صبح سیدھے خلیل صاحب کے گھر پہنچے. ناشتہ پر ملاقات ہوئی. ہم نے أخبار میں آئی خبر دکھا کر،استعجاب سے پوچها. ہندستان کی اقتصادی اہم فیصلہ کی خبر، قبل از وقت انہیں کیسے پتہ چلی .تب انکی زبانی ہمیں معلوم ہوا، اس وقت کے ریزرو بنک کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منموہن سنگھ کی اور اس وقت کے فنانس منسٹر پرناپ مکهرجی کی موجودگی میں، بحیثیت ایڈوایزر کامرس منسٹری وہ خود اس میٹنگ میں موجود تھے، جس میں عالمی منڈی میں ہندستان کی گرتی ساکھ کو بچانے کے لئے، ہندستانی روپیہ کی قیمت 30 فیصد تک گرا کر، ہندستانی ایکسپورٹ کو بڑھاتے ہوئے،

ہندستانی معیشت کو سنبھالنے کا مشورہ خلیل صاحب نے ہی دیا تھا جسے سیاست دانوں نے مذاق میں اڑانا چاہا تو اس وقت کے ریزرو بنک کے ڈائرکٹر ڈاکٹر من موہن سنگھ نے انکا ساتھ دیتے ہوئے کہا تھا “یہ تجویز وہ خود دینا چاہتے تھے،لیکن حکومت ھند کے سامنے رکھنے تامل کے شکار تھے۔ اگر اس پر رائے عامہ فیصلہ ہوجاتا ہے تو بھارتیہ معشیت کو سنبھالنے بہت بڑی مدد ملے گی” اسکے بعد من موہن سنگھ ہی کی برملا تائید سے، اس وقت کے وزیر مالیات پرنب مکھرجی نے،30 فیصد بھارتیہ کرنسی خود سے گرانے والا معرکتہ الآرا بڑا فیصلہ لیا تھا.بیک وقت 30 فیصد کرنسی ڈیولیویش سے عوامی انقلاب نہ آجائے،

اس لئے دو دن کے فرق کے ساتھ پہلے 13 فیصد اور پھر 17 فیصد گراوٹ عوام کے سامنے لائی گئی تھی۔ ہمیں اس وقت صحیح معنوں میں خلیل الرحمن صاحب کی قدر و منزلت کا احساس ہوا تھا. اور سر فخر سے بلند ہوا تھا کہ ہندستان کے نقشہ پر نقطہ کی حیثیت سے بھی کم زمینی رقبہ رکھنے والے،بهٹکل شہر کا نائطی فرزند، ہندستان کے سنہرے معشیتی مستقبل کو رقم طراز کرنے والے فیصلہ لینے کا شریک تھا. اور یقینا یہی وہ فیصلہ تھا کہ ہندستان غریب اور پچھڑے ملک کی صفحوں سے نکل کر،ترقی پزیر ملکوں کی صف میں اپنی جگہ بناتے ہوئے، 2020 تک عالمی طاقتوں کی برابری کرنے کا عزم کئے،نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن یے.بالکہ بھارت کی مصنوعات کو عالمگیر شہرت دلاتے ہوئے، اسے اپنی تیز تر ترقی پزیر معشیتی پالیسیز سے، مستقبل کا وشؤگرو بننے کی راہ پر گامزن کئے ہوئے ہے۔
محترم خلیل الرحمن صاحب صرف آپنی قیمتی معشیتی آراء سے قوم و وطن کو سرفراز ہی نہیں کرتے تھے بلکہ علیگڑھ طرز 1918 بھٹکل میں قائم انجمن حامی المسلمین ادارہ کے صدر بننے کے بعد، انہوں نے اپنے قائم کئے ایس ایم سید خلیل فاؤنڈیشن کے تحت، اپنی والدہ ماجدہ مرحومہ کے ایصال ثواب کے لئے،اس وقت انکے گھر کے قریب انتہائی کمرشل قیمتی جگہ پر کسی اور بھٹکلی تاجر کی وقف کی ہوئی انجمن کی زمین پر، بھٹکلی نساء کالج کے لئے چھ کروڑ سے اوپر والی پوری نساء کالج عمارت تعمیر کر، انجمن حامی المسلمین کو وقف کرنے فیصلہ بھی ان کا قوم کی تعلیمی ترقی کو، ایک اونچے متمئز مقام پر مہمیز کرنے کا فیصلہ تھا.

اللە ان کے جذبات کو قبول کرے. قومی نساء تعلیمی ترقی ان کی گرانقدر خدمات کو انکے آخرت کے زخیرے کے طور ان کے لئے مابعد موت مستفید فرمائے۔ کالیکٹ منعقدہ پہلی بھٹکلی بین الجماعتی کانفرنس میں، قوم نے،محترم سید خلیل الرحمن صاحب کو “قائد قوم” کے جس عظیم منصب پر متمکن کیا تھا. انہوں نے، اپنی سرپرستی میں، قومی اداروں کے ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنا کر، انہیں قائد قوم بنانے کے قومی فیصلہ کی لاج صدا رکھی تھی.
2014 شراوتی ندی ہوناور سے گنگولی تک بسے آہل نائط کی خلیج ممالک قائم مختلف جماعتوں پر مشتمل،کینرا مسلم خلیج کونسل قائم کرنے کا سہرا بھی قائد قوم ایس ایم سید خلیل الرحمن ہی کو جاتا ہے. انہی کی سرپرستی میں 2016 دوبئی منعقد کینرا مسلم خلیج کونسل کانفرنس میں بهٹکلی تاجر بردران کے کثیر سرمایہ مدد سے، تعلیمی پس ماندە علاقے ولکی سمسی ہیرانگڈی وغیرہ کی تعلیمی ترقی کے لئے، دینی اثاث پر عصری علوم، ایک معیاری مدرسہ شروع کرنے کا فیصلہ لیا گیا تھا.اس فیصلے سے، ان تعلیمی پس ماندہ نائطی مسلم اکثریتی دیہاتوں میں تعمیر اس اسکول افتتاح بعد کچھ سالوں میں، جو تعلیمی انقلاب آتا نظر آرہا ہے.

یقیناً اس کے ثمرات سے علاقے کے مسلمان جتنے مستفید ہوتے رہیں گے وہ اسکول اپنے مرحوم والد کے نام نامی سے انکے ایصال ثواب کی خاطر مکمل تعمیری سرمایہ دینے والے بھٹکلی تاجر کے ساتھ، آج ہمارے لئے مرحوم ہوئے،قائد قوم بھٹکلی احباب، المحترم خلیل الرحمن صاحب بھی بعد الموت اپنے مستقر قبر و عالم برزخ و محشر روز قیامت یقیناً مستفید ہوتے پائے جائیں گے۔بانشاءاللە
بهٹکل و اطراف بهٹکل کمٹہ سرسی ہلیال ڈانڈیلی جیسے تعلیمی پس ماندہ علاقوں میں، انکے بمبئی کے رفیق کار آلمحترم مرحوم بدر الحسن معلم صاحب کی سرپرستی میں،انہوں نے جو تعلیمی انقلاب لاکر قوم و ملت پر ایک بہت بڑا احسان کیا یےاس کو قوم مسلم تادیر یاد رکھے گی انشاءاللہ

محترم ایس ایم سید خلیل الرحمن صاحب سیاسی آدمی نہیں تھے. لیکن یہ انکا وصف خاص تھا کہ ہر سیاسی پارٹی کے لوگوں میں ان کے اچھے تعلقات والوں کی کمی نہیں تھی. اسی کے دہےمیں،بهٹکل انتخاب میں قومی سیاسی لیڈر آلمحترم مرحوم ایس ایم یحیی صاحب کی شکشت بعد، انہیں انتخاب کے لئے کانگریس پارٹی کی ٹکٹ ملنا،تقریبا ناممکن ہوگیا تها تو، اس وقت خلیل الرحمن صاحب ہی تھے جنہوں نے مرکزی وزیر محترمہ محسنی قدوائی صاحبہ سے،جو آل انڈیا کانگرئس پارٹی کی طرف سے کرناٹک انتخاب سربراہ تھیں، اپنے ذاتی تعلقات استعمال کرتے ہوئے، محترم مرحوم ایس ایم یحیی صاحب کو بنگلور جے محل کی کانگریس کی ٹکٹ دلوائی تھی.
محترم خلیل صاحب دوبئی میں ہندستانی مسلمانوں کے سفیر کی طرح رہے ہیں .اور ہندستان کے مختلف علاقوں میں اٹھائے گئے سماجی و معاشرتی اقدامات کی کبھی کهل کر تو، کبھی پس پشت رہ کر سرپرستی کی. پیس ٹی وی کی ترقی کے پیچھے بھی خلیل صاحب کی سرپرستی کا بڑا ہاتھ رہا یے.وہ پیس ٹی کے چیرمین اور معشیتی مشیر بھی تھے. کرناٹک کے مسلمانوں میں میڈیا کے تئین بیداری کے لئے مقامی کنڑا زبان کے مشہور روزنامہ وارتا بھارتی کی ترقی بھی، ایس ایم خلیل الرحمن صاحب کی مرہون منت رہے گی

وہ وارتا بھارتی پبلیکیشن کے بھی چیرمین تھے. بهٹکل و اطراف بهٹکل ساحلی پٹی پر ان کی چیرمین شب و سرپرستی میں شروع کئے گئے ساحل آن لائن نیوز پورٹل نے، علاقے کے مسلمانوں کی ترجمانی میں بڑا نمایاں کردار نبھایا ہے.
محترم خلیل صاحب کو کرناٹک سرکار کی طرف سے راجیہ اتسو ایوارڈ ، کرناٹک کونکنی ساہتیہ پریشد ایوارڈ ، سمیت کئی اعزازات مل چکے ہیں لیکن آئیرلینڈ کی ایلڈرس گیٹ کالج کی طرف سے جناب سید خلیل الرحمن صاحب کو پروفیشنل ڈاکٹریٹ ان اینٹرپرنرشپ کا اعزاز دیا جانا، یہ پوری بهٹکل برادری، بلکہ پوری نائط برادری کے لئے ایک اعزاز یے. جو انہیں 16 اپریل کو دوبئی کے ایٹلانٹا ہوٹل میں منعقد کنوکیشن پروگرام میں دیا گیا تھا.اسی فنکشن میں محترم ایس ایم خلیل الرحمن کی ذندگی کی روئداد پر مشتمل انکی آٹو بایو گرافی بهی ریلیز کی گئی تھی. کالیکٹ منعقد بین الجماعتی کانفرنس میں آنہیں عطا کردہ “قائد قوم” کے اعزاز کو، انہوں نے عالمی سطح پر، اپنی قابلیت کا لوہا منوا کر، انہیں عطا کردہ قائد قوم کے عہدہ کو بھی انہوں نے عزت بخشی تھی.آج
20 نومبر 2024 شب کے آخری لمحات میں دوبئی انکی مستقل رہایش گاہ انکے انتقال کی خبر نے ہر بھٹکلی کو یقیناً افسردہ کیا ہوگا ہی، سید خلیل الرحمن مرحوم (1938 تا 20 نومبر 2024) غیر بھٹکلی خصوصاً شمالی ھند کے ندوہ العماء لکھنؤ، دار العلوم دیوبند،مظاہر العلوم سہارنپور جیسے نامور دینی و عصری تعلیمی بڑے ادارے اور انکے والیاں متوفی ابوالحسن علی ندوی، قاری طیب صاحب مرحوم، جضرت والا شاہ ابرارالحق مرحوم جیسے تمام اکابر کے ساتھ ہی ساتھ بھارت کی مختلف ریاستوں و مرکزی سیاسی پارٹیوں کے سیاسی لیڈران جو براہ خلیجی ملکوں کو آتے ہوئے،یا یورپ و امریکہ سفر دروان دوبئی رکتے ہوئے، ایمبیسی ذمہ داران سے انکے خوشگوار تعلقات ہی کےنتیجے میں، جو خلیجی ممالک سفر پر آتے رہتے تو، ان میں اکثر مرحوم خلیل الرحمن صاحب کے مہمان ہی رہا کرتے تھے

یا انکے گھر دعوت پر شریک ضرور رہتے تھے۔ اسی کے دہے کے بعد، اپنی مالی دستیابی کے لئے ریگزار عرب تشریف لانے والے تمام دینی و عصری تعلیمی اداروں کے ذمہ دار، اپنے اپنے اداروں کے لئے، بھٹکلی خلیل الرحمن صاحب کی مدد و نصرت کے پیش نظر، انہیں اپنے برادر و سرپرست جیسے عزیر رکھتے تھے۔یقیناً آج خلیل الرحمن کی وفات خبر سے،انہیں بھی صدمہ پہنچا ہوگا اور انہوں نے بھی انکی مغفرت کے لئے دعائیں کی ہونگی۔ مفہوم حدیث مخلوق خدا کی خدمت کرنے والے خالق کائینات کے بھی چہیتے ہوتے ہیں،یقینا مرحوم سید خلیل الرحمن سی اے صاحب بھی اپنی طویل تو عوامی خدمات ہی صلے میں بارگاہ ایزدی اونچے اور مہمیز مقام پر متمکن پائے جائیں گے ۔انشاءاللہ۔وما التوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں