پر امن پا کستان کا ادھوراخواب !
ملک میں ایک طرف سیاسی انتشار کا خاتمہ نہیں ہو پارہا ہے تو دوسری جانب دہشت گر دی کا ناسور بڑھتا ہی چلاجارہا ہے ، ایک کے بعد ایک دہشت گرادانہ کاروائیاں ہورہی ہیں اور ان کاروائیوں میںبڑی تعداد میں قیمتی جانوں کا نقصان ہورہا ہے، سیکورٹی فورسز اپنے تائیں دہشت گردی کے سد باب کیلئے نہ صرف پرُعزم ہیں ،
بلکہ بے انتہا قر بانیاں بھی دیے رہے ہیں ، اس کے مقابل حکو مت ماسوائے دہشت گرانہ کاروائیوں کی مذمت کر نے اور شہدا کے لو احقین کیلئے اعلانات کر نے کے کچھ بھی نہیں کررہی ہے ،وفاقی حکو مت ،صوبائی حکو مت پر ذمہ داری ڈال رہی ہے اور صوبائی حکو مت وفاق کو مود الزام ٹہرا ئے جارہی ہے ، کوئی اپنی ذمہ داری قبول کررہاہے نہ ہی اپنی کو تاہیوں کا ازالہ کر رہاہے ، سارے ہی ایک دوسر پر ڈالے جارہے ہیں ، جبکہ اس کے سارے ہی ذمہ دار ہیں۔اگر دیکھا جائے تو ملک کے حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں ، جبکہ حکو مت بضد ہے کہ ان کے آنے کے بعد سے حالات بہتر سے بہتر ہورہے ہیں
،اگر حالات اتنے ہی بہتر ہورہے ہیں تو ملک میں افر ا تفری کیوں ہے ، عوام سڑ کوں پر سراپہ احتجاج کیوں ہیں ،دہشت گر دانہ کاروائیاں کیوں بڑھتی ہی جارہی ہیں ؟ اس کے باوجود سب کچھ اچھا ہے کہہ کر خود کو بہلایا جاسکتا ہے ،مگر عوام کوور غلایا نہیں جاسکتا ہے ، کیو نکہ عوام باشعور ہیں اور جانتے ہیں کہ اس ملک کے حالات کو بہتر بنا نا آزمائے کے بس کی بات نہیں ہے ، اس کیلئے طاقت ور حلقوں کو خود ہی کچھ کر نا ہو گا یا ایسے اہلیت کے حامل لوگوں کو آگے لانا ہو گا ، جو کہ ملک کو ایسے بگڑے حالات سے نکالنے کا ہنر جانتے ہیںاور اس ملک میں استحکام لا کر تر قی و خو شحالی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں ۔
اس ملک میں جو کوئی بھی آئے گا یا لایا جائے گا ، سیاسی استحکام و قیام امن لائے بغیر آگے نہیں بڑھ پائے گا ، اس لیے سیاسی استحکام و قیام امن لا نا انتہائی ضروری ہے ، لیکن اس میں ہی کوتا ہی کی جارہی ہے ، اگر کوتاہی نہ ہوتی تو سیاسی عدم استحکام ہوتا نہ ہی دہشت گردی میں اضافہ ہوتا، بلکہ ملک کے حالات واقعی بہتر ہوتے، حکو مت کے عوام گن گارہے ہوتے اور اس کی حمایت کر رہے ہوتے ،اس طر ح سڑکوں پر احتجاج نہ کررہے ہوتے ، حکو مت احتجاج روکنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگارہی ہے ، لیکن اس کے اسباب دور نہیں کررہی ہے ، اس احتجاج کے اسباب کا جب تک سد باب نہیں کیا کیا جائے گا ،
ایک کے بعد ایک ایسا ہی احتجاج ہوتا ہی رہے گا، حکو مت حالات بہتر کر پائے گی نہ ہی زیادہ دیر تک چل پائے گی ،بلکہ عوام کی رہی سہی حمایت بھی کھو دے گی ۔حکو مت اور اپوزیشن دونوں ہی کے پا س ابھی وقت ہے کہ اس کھیل سے باہر نکل آئے جو کہ ان کو آگے رکھ کر عوام کے ساتھ کھیلا جارہا ہے ،ایک طرف حکومت اور اپوزیشن کو لڑیا جارہا ہے تو دوسری جانب پس پردہ مذاکرات کا ٹیبل سجایا جارہا ہے ، اس قدر گرما گر می کے ما حول میں اندر خا نے بات چیت اور مذاکرات کا کیا مطلب ہے ـ؟اس کا ایک ہی مطلب ہے
کہ ایک بار پھر دونوں کو ہی بے وقوف بنایا جارہا ہے اور عوام کے سامنے ان کا اصل چہرہ لایا جارہا ہے ، عوام کوباور کرایا جارہا ہے کہ اہل سیاست ناقابل اعتبار ہیں ، یہ اپنے وعدوں ، اپنے دعوئوں سے پھر جاتے ہیں اور اقتدار کیلئے سب کچھ ہی دائو پر لگا جاتے ہیں ،انہیں ملک عزیز ہے نہ ہی عوام کا کوئی خیال ہے ، ان کی تر جیحات میں عوام رہے ہیں نہ ہی عوام کو اپنی تر جیحات میں شامل کیا جاتاہے ، عوام کو صرف استعمال ہی کیا جارہا ہے اور اس وقت تک استعمال کیا جاتا رہے گا ، جب تک کہ اس کے خلاف سارے باہر نہیں نکلیں گے
، اس فر سودہ نظام کو نہیں بد لیں گے ۔اس ملک کے فیصلہ سازوں کو سو چنا ہو گا ، اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر نا ہو گا اور اس سوچ کو بیدار کر نا ہو گا کہ ہم بھی ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں ، اندرونی و بیرونی سازشوں سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں ، دہشت گردی، خود کش حملوںاور سیاسی عدم استحکام سے مل کر نجات حاصل کر سکتے ہیں، یہ ملک ہے تو ہم ہیں ، یہ ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے ،
یہ ملک ہی ہماری پہچان ہے اور اس ملک کی بدولت ہی دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں،اللہ سبحان نے جو نعمت دی ہے ، اس کی قدر کر نا ہو گی ،اس کی حفاظت کرنا ہوگی اور اس کی ترقی اور خوشحالی کیلئے ایک ہوکر کوشش کرنا ہوگی ، ورنہ ایک پرُامن پا کستان کا خواب ادھورا ہی رہ جائے گا اور کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا، سارے ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔