ممکن ہی نہیں کوئی یہ نقش مٹا پائے
ڈاکٹر فرزانہ فرح صاحبہ پرنسپل انجمن گرلز کالج بھٹکل
قومی اور بین الاقوامی سطح پر، سیاسی سماجی اور معاشی حلقوں میں اپنی منفرد شناخت اور دبدبہ رکھنے والے ایک مثالی رہبر، قائد قوم اور سرپرست انجمن، عزت مآب سید خلیل الرحمٰن سی اے کی کل تدفین ہوئی.. انا للہ…
خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ
ہم نے سونا سپرد خاک کیا
خوش شکل، خوش پوش، روشن دماغ، پر وقار خلیل الرحمٰن صاحب پیکر اخلاص و مروت تھے. کولہو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں گردش کرتی قوم انھیں ناقابل قبول تھی. ہمہ گیر مشن اور وژن رکھنے والی اس عظیم شخصیت نے پوری وارفتگی اور مکمل خود سپردگی کے ساتھ، بھٹکل کے مختلف اداروں کی قیادت کی. بالخصوص ادارہ ءانجمن ان کے دل کے سب سے قریب رہا. اہل بھٹکل اس امر کے گواہ ہیں کہ معاملہ انجمن ادارے کا ہو توکسی قد آور ہستی کو بھی خاطر میں نہ لاتے.
ملت کا درد سینے میں رکھنا اور انسانیت سے عشق کرنا کار جنوں کی حیثیت رکھتا ہے. خلوص کی وادی مشکلات کا وہ سفر ہے جو مسافر کی سخت جانی کا طالب ہوتا ہے. دور حاضر میں احسان فراموشی کا دور دورہ ہے. آج خوش اخلاق ہونا ایسا ہی ہے جیسے سمندر میں عطر کے چند قطرے ٹپکانا. تقدس مآب خلیل صاحب کا اختصاص یہ ہے کہ وہ ایک ایسے بلند قامت، چھتنار درخت تھے جو سایہ بھی دیتا تھا اور پھل بھی.
ممکن ہی نہیں کوئی یہ نقش مٹا پائے
ہم عشق و محبت کے کچھ ایسے حوالے ہیں
ملیشیائ کہاوت ہے کہ جس کی جیب خالی ہو اس کو اپنی زبان کو میٹھا بناے رکھنا چاہیے. سیدخلیل صاحب دولت کی ریل پیل ہونے کے باوجود، سر تاپا شکر کا کارخانہ تھے. اللہ کے در سے دولت سب کو عطا ہوتی ہے. بس اس کو بانٹنے والا دل کم عنایت ہوتا ہے. خلیل صاحب نے ، بلا لحاظ قوم و ملت، عمر، رشتہ، علاقہ، عہدہ، محبت کا شہدسب میں تا دم آخرتقسیم کیا اور خوب تقسیم کیا . خواہ اسکول، کالج، مدرسہ ومسجد کی تعمیر ہو، غریبوں کا ماہانہ راشن ہو، آب رسانی کی سہولت ہو، بچت اسکیم ہو یا یوتھ فیڈریشن کا قیام. نوجوانان ملت کے روزگار سےجڑے مسائل کا حل ہو یا سیاسی اثر ورسوخ سے تعلیم وتدبر کی راہ ہموار کرنی ہو. ان کے خلوص نے حقوق العباد کی ادائیگی میں کہیں کوئ کسر نہ چھوڑی. تاہم اس کا چرچا کیا نہ تذکرہ. رعب گانٹھا، نہ اس سے کوئی مفاد وابستہ رکھا. برتری جتائ نہ احسان.بھرا ظرف رکھتے تھے، عمر بھرکم ظرفوں کی مانند چھلکنے سے محتاط رہے.
محترم علماء و فضلا کے قدردان، اور مردم شناس تھے. ہلکا سا اندازہ ہوتا کہ کسی میں ذرہ بھر قابلیت ہے تو اس کی بھر پور ہمت افزائی کرتے. میں اس لحاظ سے خوش بخت رہی کہ مجھ ناچیز کو بھی عزیز رکھتے ہوئے انجمن کالج فار ویمن کے افتتاحی جلسےکا انچارج بنایا . میٹنگز کی گئیں. باریک بینی سے سارے معاملات پر نظر رکھتے ہوئے گرانقدر مشورے عطا کئے اوراسی جلسے میں مجھے اعزاز سے بھی نوازا.
اکثر بڑی چاہتوں سے گھر مدعو کرتے. ایک دفعہ بڑے شوق سے مختلف ممالک کے، مختلف الاقسام خشک میوہ جات بہت اصرار سے کھلاتے رہے اور اس کے متعلق معلومات فراہم کرتے رہے. کل رات نبیرہ محتشم نے یاد دلایا کہ سالوں قبل ان کی یہ خواہش رہی تھی کہ میں اور نبیرہ، جماعت کے کاموں میں سرگرم ہو کر دور دراز کا سفر کریں . ان ایام میں یہ ممکن نہ تھا اور میں نے معذرت طلب کی تھی. دختران قوم کوبراے پرواز، نئے پنکھ اور نیا آسمان عطا کرنا ہما شما کے بس کی بات نہیں. یہ وسیع النظری خلیل صاحب کی فطرت کا تابناک پہلو تھی.
کہا جاتا ہے جس کنویں سے لوگ پانی پیتے ہیں وہ کنواں نہیں سوکھتا. جود و سخا کا یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہر دم لوگوں، بالخصوص قوم نوائط کو فیض پہنچا نے میں کوشاں رہتا اور اسی صفت میں ان کی بقا کا راز پوشیدہ ہے.ان کے کارناموں کی بازگشت میڈیا میں یہاں سے وہاں تک سنائی دے رہی ہے. کیا بھٹکل، کیا کرناٹک کیاہندوستان پوری دنیا سے بلند قامت علماو، فضلاء، سیاست دان، سماج سیوک ان کے انتقال پر ہمارے شریک غم ہیں.
نوجوانان ملت کو یاد رکھنا چاہیے ، ہمارا دماغ بنک کی طرح ہوتا ہے، اس میں جو چیز Deposit ہوگی وہیWithdraw کی جاسکے گی. یہی وجہ ہے کہ عمومی حب انسانی سے اوپر اٹھ کر قوم اور بنی نوع انساں سےمحبت سیکھنے کے لیے کسی بزرگ کا قرب لازمی ہے. کتابوں اور کہانیوں سے ایسی عظیم محبت نہیں سیکھی جاسکتی. اس کی خاطر ایس ایم خلیل صاحب جیسے رہنماؤں کی روداد سننے کی ضرورت ہے جس سے ذہنی انقلاب آئے.. اور، بقول شخصےزندگی کی رفتار ایسی رکھی جائے کہ دشمن آگے نکل جائے تو کوئی بات نہیں مگر کوئی دوست پیچھے نہ رہ جائے.
جادہ جادہ چھوڑ جاو اپنی یادوں کے نقوش
آنے والے کارواں کے رہنما بن کر چلو
نفسا نفسی کے زمانے کی چلچلاتی دھوپ میں ابر مہرباں کا کردار نبھانے والے کتنے ہیں؟ لڑکھڑاتے وجود، مٹتی آرزوؤں کوسہارا دینے والے کتنے ہیں؟ رستے زخموں پر مرہم رکھنے والے کتنے ہیں؟ کتنی آنکھوں میں دعاوں کے جگنوچمکتے ہیں اور کتنے ہیں جن کے دامن رشتے ناطوں کی اشرفیوں بھرے ہیں؟
صدیاں گزر جاتی ہیں جب ایسے فخر روزگار جنم لیتے ہیں. بس مجھے افسوس اس بات کا ہے.
*لوگ اچھے ہیں بہت، دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائ ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں*
لوگ زندگی بھر محبت کا قرض چکاتے ہیں. خلیل صاحب کو خدا اور خدا کی مخلوق سے محبت کرنے کے جرم میں جلاوطنی کی سزا کاٹنی پڑی. یقیناً خواب وخوشبو کے اس حوالے کی خاطر اللہ رب العزت نے بہشت نعیم کی فراخی لکھی ہوگی. دنیا میں نمرود کے بے شمار آتش کدے دہک رہے ہیں ایسے میں ایسے کئ خلیل کی حاجت باقی رہے گی جو رحمت خداوندی کو آواز دیں اور اس آگ کو گلزار میں بدل دیں.
اللہ رب العزت مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائےاور جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے. آمین ثم آمین