جینا بھی عذاب
جمہور کی آواز
ایم سرورصدیقی
ملک میں اشیائے خوردونوش اور فروٹ کے نرخوںمیں مسلسل اضافہ دیکھ کرلگتاہے پاکستان میں حکومت نام کی کوئی چیزنہیں ہے ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر،اسسٹنٹ کمشنراور افسروںکی فوج ظفرموج کے باوجود عوام کا کوئی پرسان ِ حال نہیںآخرانتظامیہ کسی مرض کی دواہے ۔ کوئی ہے اس سوال کا جواب ۔ کسی کے پاس؟؟؟سیاسی افراتفری، معیشت کے عدم استحکام اور خوفناک مہنگائی کے ماحول میں 13جماعتی حکومتی اتحادPDM سرکار نے عوام کی باں باں کروادی ہے جب سے سلیب سسٹم کے تحت یوٹیلٹی بلز کااجراء ہورہا ہے
لوگوںکی چیخیں نکل گئی ہیں صرف ایک یونٹ کے تفاوت سے ہزاروں کافرق پڑ جاتاہے عام آدمی بالخصوص عورتیں جھولیاں اٹھا اٹھاکر یہ سلیب بنانے والوںکو بددعائیں دیتی پھرتی ہیں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی مہنگائی الگ ستم ڈھارہی ہے یعنی اس حکومت نے عوام کا جینا عذاب بناڈالاہے اس کے علاوہ خدشہ ہے کہ ٹیکس وصولی کا ہدف پورانہ ہوسکا تو پھر عوام کی شامت آجائے گی پھربجٹ کا خسارا اورٹیکس کا ہدف پورا کرنے کیلئے عوام پر سائٹیفک طریقے سے ٹیکس لگانے کیلئے نئی نئی سکیمیں تیار کی جائیں گی
اتنے ایک دور تھا جب بجٹ پیش کیا جاتا تو سال بھر قیمتوںمیں استحکام رہتا انتظامیہ اور صوبائی و وفاقی حکومتیں سختی سے گراں فروشوں کے خلاف ایکشن لینا اپنا فرض سمجھتی تھیں اب تو حکومت بجٹ کا تو تکلف ہی کرتی ہے ورنہ پتہ ہی نہیں چلتا کب بجٹ آیا کب گیا؟نئے مالی سال کا آغاہو،منی بجٹ یا معمول کے حالات گرانی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے حسب ِ معمول کہا جاتاہے کہ سب اچھا ہے عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا
اب معلوم نہیں یہ کون سے عوام ہیں جن پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا پاکستان کی ہر حکومت غریب عوام کو خوش کرنے کیلئے نہ جانے کتنے وعدے اور ان گنت کرتی ہے پھر مافیا نت نئے بحران ارینج کرتے ہیں کبھی آ ٹا کبھی چینی ،کبھی آلو کبھی پیاز اور کبھی ٹماٹر نہیں ملتی اوور لوگ پھر پاگلوںکی طرح خریداری کرتے ہیں
جس سے چیزیں اور مہنگی ہو جاتی ہیں ایک اور بات ہمیشہ سیاسی افراتفری کے ماحول یا کمزور حکومتوں کے دور میں قیامت خیز مہنگائی ہو جاتی ہے پھر عام آدمی اس بوجھ تلے دب کرچوں بھی نہیں کر سکتا رہی سہی کثر منی بجٹ میںٹیکسزلگاکر عوام کادھڑن تختہ کردیا جاتاہے جس پر حکومتی ارکان بڑی ڈھٹائی سے سینہ تان کر کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں اس سے بہتر کوئی آپشن نہیں تھا اب عام آدمی کیا کرے جس کی قسمت میں ساری زندگی سسکنا، کڑھنا اور کوسنا ہی مقدر ہے حکمران ریونیو اکٹھا کرنے کیلئے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں اضافہ کرکے اس تیز بہدف نسخے کو بلا دریغ استعمال کرنے سے ذرا نہیں چوکتے ۔ حالات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا
موجودہ حکومت کے دورمیںہوشربا مہنگائی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں خود وزیر ِ اعظم نے بھی تسلیم کیاہے کہ غربت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے لیکن کہایہ جارہاہے کہ مہنگائی کی شرح پہلے سے کم ہوگئی ہے سردیوں کے باعث بجلی کے بل کم آنے لگے ہیں تو اس کا کریڈٹ بھی حکومت لینا چاہتی ہے یہ تو عوام کے ساتھ ایک سنگین مذاق سے کم نہیں یہ بات تو طے ہے کہ جب بھی آ ئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کیا جاتاہے اس سے بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان آ جاتاہے یہی وجہ ہے کہ حکمرانوںنے عوام کو افراط زر اور معاشی زوال کے چنگل میں پھنسا دیا ہے اشرافیہ اپنی مراعات پرکوئی کمپرو مائز نہیں کرتی عوام سے ہر وقت قربانیوںکا تقاضا کیا جاتاہے جب سے حکومت نے اداروں اور محکموںکو خود مختاربنایا ہے انہیں شتربے مہارآزادی مل کئی ہے ان کا بااثر لوگوںپر تو کوئی زور نہیں چلتا لیکن انہوںنے غریبوں کا جینا ضرورمشکل کردیا ہے وہ سارا سال مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے سروسز چارجز بڑھاتے رہتے ہیں مختلف حیلوں بہانوں سے عوام سے پیسے بٹورے جا تے ہیں
اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت ،بڑے بڑے سیاستدانوں حتی کہ اپوزیشن رہنمائوں نے بھی عوام کی طرف آنکھیں بند کرلی ہیں۔حکمران عوامی مسائل اور مشکلات سے لاتعلق ہو چکے ہیں ناقدین، اپوزیشن اور حکومت مخالف رہنمائوںکو سستی شہرت حاصل کرنے ، دل کا غبار نکالنے یا بیان بازی کا ایک بہانہ میسر آ جاتاہے جس طرح حکومت اپنے مخالفین کو کچلنے کے لئے بھرپور ریاستی وسائل استعمال کررہی ہے اسی طرح عام آدمی کو ریلیف دینے کے لئے اقدامات کرناہوںگے روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی اور پے در پے منی بجٹ سے گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں
ان حالات میں حکومت کی طفل تسلیاں کہ عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا دعوے کو حقیقت بنانے کیلئے کچھ نا گزیر اقدامات کرنا پڑتے ہیں کچھ بے رحم فیصلے بھی کرناپڑیں گے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والی پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی صلاح ِ احوال کے لئے ایک مشورہ مفت دیاجارہاہے کہ حکومت بالخصوص کھانے پینے اشیائ،ہر قسم کی یوٹیلٹی سروسز،ادویات کی قیمتیں الغرض ہر چیز کے نرخوں کا تعین ایک سال کیلئے مقرر کرے،کسی ادارے، محکمے یا نیشنل،ملٹی نیشنل کمپنی کو ایک سال سے پہلے قیمت بڑھانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے اس پر سختی سے عمل کروایا جائے تو نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملے گی بلکہ غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے گی۔