24

استحکام، مگر کیسے!

استحکام، مگر کیسے!

اس وقت قوم ایک عجیب و غریب منظر دیکھ رہی ہے کہ اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے سے ایسے دست گر یباں ہیںاور ایک دوسرے پر ایسے آتشیں لفظوں کی گولہ باری کر رہے ہیں کہ جیسے دشمن ملک کے خلاف بھی ایسی شعلہ نوائی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے، اس بات کا دونوں جانب سے ہی احساس نہیں ہے کہ یہ ایک دوسرے کے بارے میں زہر فشانی نوجوانوں کے اذہان و قلوب میں کیا تلاطم پیدا کر رہی ہے

اور نئی نسل کو کس طرح سے ملک کے مستقبل سے مایوس ہورہی ہے، اس ملک کی کسی ایک کو کوئی فکر ہے نہ ہی نئی نسل کی مایوسی کا کوئی خیال کر رہا ہے ، ہر کوئی اپنی ذات کو ہی تر جیح دیئے جا رہا ہے اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کو ہی یقینی بنا نے میں لگا ہواہے ، جبکہ عوام رُل رہے ہیں ، ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیںاور اس وقت تک بھگتے ہی رہیں گے ، جب تک کہ بار بار آزمائے ہوئوں سے جان نہیں چھوڑائی جائے گی۔
گزشتہ انتخابات میں عوام نے بڑی کوشش کی تھی کہ ان آزامائے ہوئوں سے جان چھوٹ جائے ،عوام نے ان آزمائے ہوئوں کو بڑی بے دردی سے مسترد بھی کیا تھا ، مگر انہیں ایک بار پھر زبر دستی عوام پر مسلط کر دیا گیا اور عوام کو مجبور کیا گیا کہ ان آزمائے ہوئوں کے ساتھ ہی گزارا کر نا ہے، عوام کو نا چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ چلنا پڑ رہا ہے ، ان کی نا اہلیوں کا سارا بو جھ اُٹھا نا پڑرہا ہے ، لیکن اب عوام کی بر داشت جواب دینے لگی ہے

، اس زبر دستی کے خلاف عوام سڑ کوں پر آنے لگی ہے ، اپنے حق رائے دہی کیلئے آواز اُٹھا نے لگی ہے ، لیکن عوام کو طاقت کے زور پر دبایا جارہا ہے ، دیوار سے لگایا جارہا ہے اورظلم و جبر کا خوف پھلایا جارہا ہے ،اس سے عوام خوف زدہ نہیں ہوئے تو تشددت کر کے بھگایا جارہا ہے۔
اس حکو مت کا اپنے ہی عوام پر ظلم و جبر اپنے ہی گلے پڑنے لگا ہے تو ایک بار پھر سہارا دینے والوں کو مدد کیلئے پکارا جانے لگا ہے ،

ایک بار پھر وہی پرانا فار مولا دھرایا جانے لگا ہے ، جو کہ اس سے پہلے مختلف مواقع پر دھرایا جاتا رہا ہے ، ایک بار پھرمولا نا فضل الرحمن کو آگے لایا جارہا ہے ، اس گر تی دیوار کو سہارا دینے کیلئے مولانا کود پڑے ہیں اور اندرخا نے حکو مت سے مل کر مدارس کے بل پر دستخط روک چکے ہیں ، اس کے بعد حکو مت سے ہی کہہ رہے ہیں کہ دینی مدارس کو حکومت انتہا پسندی اور شدت پسندی کی طرف دھکیل رہی ہے،

اگرمدارس کو دباؤ میں رکھنا ہے تو ہم بتائیں گے کہ آپ کا دباؤ چلتا ہے یا ہمارا چلتا ہے، اصل شدت پسند تخریب کار وہ لوگ ہیں، جو کہ ملک کو فساد کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں، ہم تو پرامن طریقے سے معاملات طے کرنا چاہتے ہیں۔
اس پر تحر یک انصاف کے رہنما شیر افضل مروت کا کہنا بالکل بجا ہے کہ مو لا نا زیادہ دیر تک اپوزیشن میں رہ نہیں پائیں گے ، وہ حکو مت میں رہنے کے عادی ہیں اور حکو مت میں جا نے کیلئے ہی پر تول رہے ہیں ، یہ مدارس بل پر دستخط کا نہ ہو نا اور اس پر احتجاج کر نا ،عوام کو توجہ ہٹانے اور تو جہ بٹانے کا ایک بہا نہ ہے ، اس مدارس بل پر صدر کے دستخط ہو جائیں گے اور یہ بل منطور بھی ہو جائے گا

، لیکن اس حکو مت نے تحر یک انصاف کے احتجاج کر نے والوں کے ساتھ جو کچھ کیا ہے ، اس کے گلے سے نکلے گا نہ ہی اس سے چھٹکارہ مل پائے گا ، یہ حکو مت اپنے ہی بو جھ سے گر رہی ہے اور اسے مولانا سہارا دینے کی کوناکام کوشش کررہے ہیں ، اس بار مولانا سہارا دیے پائیں گے نہ ہی حکو مت کا حصہ بن کر اسے چلا پائیں گے ، اس کے جا نے اور کسی دوسرے کے آنے کا بگل بج چکا ہے ۔
اس حکو مت کے پائوں تلے سے زمین سر کنے لگی ہے تو اتحادیوں کے رویئے بھی بدلنے لگے ہیں او راپنی باری لینے کیلئے دوڑنے لگے ہیں ،اس دوڑ میں آصف علی زرداری سب سے آگے اور ان کے ہو نہار بیٹے بلاول بھٹو زرداری پیچھے پورا ساتھ دیے رہے ہیں ،ایک طرف نائب وزیر اعظم سے ملاقات کررہے ہیں تو دوسری جانب مو لا نا فضل الرحمن سے آئندہ کے معاملات طے کررہے ہیں ، جبکہ فیصل واڈا کا کہنا ہے کہ کوئی بھی اقتدار میں آسکتا ہے ، ایک قو می حکو مت کا ڈول بھی ڈالا جاسکتا ہے

، اس پر فیصلہ سازوں کی بیٹھک ہورہی ہے ، لیکن کیا اس طرح سارے ہی الجھے معاملات سلجھ جائیں گے اور اس عدم استحکام کی دلدل سے نکل پائیں گے؟اس پر پا لیسی ساز وں اور فیصلہ سازوں کو بغورسو چنا ہو گا اور اس کا از سر نوں جائزہ لینا ہو گا کہ ہر پا لیسی اور فیصلہ سازی کی ناکامی کے اسباب کیا رہے ہیں ،اس ملک میں جب تک بند کمروں میں پا لیسیاں بنتی رہیں گی اور فیصلے ہوتے رہیں گے

، ملک کے حالات میں بہتری آئے گی نہ ہی عوام کی زند گی میں کو ئی تبدیلی لائی جاسکے گی ، اس ملک کو چلا نے اور آگے لے جا نے کیلئے بند کمروں سے نکلنا ہو گا اور عوام کی مشاورت سے آگے کا لائحہ عمل طے کر نا ہو گا ، عوام کو ہی آزادانہ حق رائے دہی دینا ہو گا اور عوام کے ہی فیصلوں پر عمل در آمد کر نا ہو گا ،عوام مخا لف فیصلوں کے زیر اثر ملک میں استحکام لایا جاسکتا ہے نہ ہی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گا مزن ہوا جاسکتا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں