کوئی نہ کوئی راہ نکل ہی آئے گی !
ملک ایک ایسے سیاسی بحران کا سامنا کر رہا ہے کہ جس کی شدت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی جا رہی ہے، اس بحران کے خاتمے کے راہ سب جا نتے ہیں اور ما نتے ہیں ، مگر اس راہ پر کوئی چلتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،اگر حکومت اور اپوزیشن خلوصِ دل اور نیک نیتی سے مذاکرات کی میز پر مل بیٹھیں تو کوئی نہ کوئی راہ نکل سکتی ہے، مگر دونوں ہی فریق مذاکرات سے راہِ فرار اختیار کرتے نظر آتے ہیں،لیکن انہیں آج نہیں تو کل ایک میز پر بیٹھنا ہی پڑے گا اور سارے الجھے معاملات کاکوئی حل تلاش کر نا ہی پڑے گا ،اس کے بغیر آگے چلاجاسکتا ہے نہ ہی مزیدآگے بڑھا جاسکتا ہے ۔
اگر دیکھا جائے تو اس وقت ملک میں معا شی‘ سماجی اور سیاسی استحکام کی انتہائی ضرورت ہے اور یہ سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں ہے،اس کا ادراک جب تک حکو مت اور اپوزیشن نہیں کر یں گے ، ملک میں استحکام کیسے آئے گا ؟ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے حریف نہیں ہیں‘ بلکہ ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں، یہ دونوں پہیے ایک دوسرے کے متوازی چلیں گے تو ہی ملک کی گاڑی آگے بڑھ سکتی ہے، اس کیلئے دونوں کی ہی زور لگا نا ہو گا، ایک دوسرے کو اپنے قر یب لا نا ہو گا،
اس حوالے سے حکو مت اور اپوزیشن مل بیٹھنے کی زبانی کلامی باتیں تو بہت کرتے ہیں ، لیکن اس پر اب تک کوئی سنجیدہ کوشش ہوتی دکھائی نہیں دیے رہی ہے۔اس حوالے سے اب تک تحر یک انصاف پر ہی زیادہ اعتراض کیا جاتا رہا ہے کہ حکو مت کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں ہیں ، لیکن اس بار اپوزیشن لیڈر نے حکو مت کو مذاکرات کی دعوت دیے کر اس اعتراض کو دور کر نے کی کوشش کی ہے ،
اب حکومتی حلقوں کی جانب سے اس کا نہ صرف سنجیدگی سے جواب دیا جانا چاہیے، بلکہ دو نوں فر یق کی جانب سے ایسے ارکان کو مذاکراتی کمیٹی میں شامل کرنا چاہیے کہ جن کا مقصد سیاسی مفاہمت کا فروغ ہو،اگر اس بار پھر آتش زیر پا عناصر کو مذاکراتی عمل میں شامل کیا گیا تو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر بھی الجھے مسائل کا کوئی حل نہیں نکالا جا سکے گا۔اس وقت مذاکرات ہی وقت کی اہم ضرورت ہیں ، اس کا ادراک جتنا جلد کر لیا جائے گا ، اتنا ہی جلدحالات بہتری کی جانب گا مزن ہو پائیں گے ، اس میں حکو مت اور اپوزیشن دونوں کو ہی سنجیدگی دکھانا ہو گی اور ایسی شرائط کے ساتھ ایسی تجاویز بھی سامنے لانا ہوں گی
جو کہ فر یقین کیلئے قابل قبول ہو جائیں ،حکو مت جب دو قدم پیچھے ہٹے گی تو اپوزیشن بھی اپنا رویہ بد لے گی ،اس طرح مذاکراتی عمل میں آگے بڑھنے کی کوئی راہ نکلے گی ،حکومت اور اپوزیشن کو کوئی قابل قبول راہ نکالنا ہی ہو گی ، اس طرح دست گر یباں ہو کر مزید چلنا جہاں انتہائی دشوار ہو تا جارہا ہے ،وہیں طاقتور حلقوں کا صبر بھی جواب دیتا جارہا ہے ، یہ ایک پیج کسی وقت بھی بدل سکتا ہے
، اس پیج پر کوئی دوسرا بھی آسکتا ہے، اگر اہل سیاست نے بر وقت اپنے معاملات کو نہ سلجھایا تو پھر معاملات سنبھالنے کوئی اور بھی آسکتا ہے، اس کے آثار بڑے واضح دکھائی دینے لگے ہیں اور بہت قریب سے خطرے کے آلارم سنائی دینے لگے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں رہاہے کہ اس وقت ملک کو معاشی اور قومی سلامتی کے جس طرح کے خطرات کا سامنا ہے‘ ان کا مقابلہ کرنا کسی ایک ادارے یا کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں رہی ہے، ہمیں اپنے ماضی سے ہی کچھ سبق حاصل کر لینا نا چاہئے اور اپنی پرانی غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہئے ، ہم سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک کا بہت نقصان کر چکے ہیں، اس سلسلے کو اب ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوششیں کر نی چاہئے
اور مصالحت سے کوئی راہ نکالنی چاہئے صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے کئے گئے فیصلے مسائل بڑھا تو سکتے ہیں کم نہیں کر سکتے ہیں ، ہمیں اپنے معاشی وسیاسی مسائل کے حل کے لیے فوری اور متفقہ فیصلے کرنے ہوں گے اور ان فیصلوں کی روشنی میں ہی آگے بڑھنے کے راستے نکالنا ہوں گے،اس میں ہی سب کا بھلا اور سب کی ہی خیر ہو گی، بصورت دیگر سب کچھ ہی ہاتھ سے نکل جائے گا اور سارے خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔