18

مذاکرات سے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے!

مذاکرات سے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے!

حکو مت اور تحریک انصاف مذاکرات کر نے پر آما دہ ہو گئے ہیں ،حکومت اور تحریک انصاف نے قر یب آنے میں کچھ دیر تو کر دی ،مگر یہ اچھی بات ہے کہ دونوں کے در میان مذاکرات کیلئے رابطے شروع ہوگئے ہیں اور اس کیلئے پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم استعمال کیا جارہا ہے، اس کشیدگی کی شدید کیفیت میں توقع تو نہیں کی جاسکتی ہے کہ کل ہی سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ،لیکن اس مذاکراتی عمل سے سیاسی در جہ حرارت میں فوری کمی ضرور آئے گی اور آگے بڑھنے کا کوئی راستہ بھی نکلے گا ،کیو نکہ سیاست میں مذاکرات سے ہی آگے بڑ ھنے کا راستہ نکلتا ہے ۔یہ بات اہل سیاست بخو بی جا نتے ہیں

اور ما نتے ہیں ،اس کے باوجود مذاکرات سے اعتراض کیا جاتا رہا ہے ،تاہم اب بھی دیر آید درست آیدکے پیش نظر، اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے اور اس عمل میں جس کی جانب سے جتنا تعاون فراہم ہو سکتا ہے، اس میں کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہیے، اس مذاکرات کے عمل میں زیادہ ذمے داری برسراقتدار فریق کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے کہ اگر مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں

تو اس کا زیادہ فائدہ، بھی حکومت کے حصے ہی میں آئے گا کہ اسے کمتر مزاحمت اور پر سکون ماحول میں کام کرنے اپنے معاشی، معاشرتی اور سیاسی عزائم کی تکمیل، عوام کی خدمت اور ملک و قوم کے مسائل حل کے لیے منصوبوں پر عملدرآمد میں آسانی فراہم ہو گی۔یہ امر حیران کن ہے کہ اس ضمن میں حکومت کی جانب سے جس گرمجوشی کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے تھا، وہ دیکھنے میں نہیں آرہا ہے،

بلکہ بعض وفاقی وزراء خصوصاً وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ وغیرہ کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آرہے ہیں کہ جن سے مفاہمت کا عمل آغاز ہی میں سبوتاژ کرنے کا تاثر نمایاں ہونے لگاہے،اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ حکو مت مفاہمت سے گریز کررہی ہے ،اس قسم کا تاثر نہیں آنا چاہئے ، اگر اپوزیشن نے ہاتھ بڑھایا ہے تو حکو مت کو بھی آگے بڑھ کر گلے لگانا چاہئے اور اسسیاسی انتشار سے جتنا جلد ہو سکے ، باہر نکلنا چاہئے ،اگر ایک دوسرے سے ایسے ہی سر د مہری کا مظاہرہ کیا جاتا رہا تو معاملات سلجھنے کی بجائے مزید اُلجھتے ہی چلے جائیں گے۔
اگر دیکھا جائے تو اس وقت حالات اجازت نہیں دیتے ہیں کہ معاملات کو مزیدبگاڑا جائے، وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے متعلق عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ معاملات کو مفاہمت اور افہام و تفہیم سے طے کرنے پر یقین رکھتے ہیںتو اس صورت حال پر خصوصی نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی ہر کوشش کی حوصلہ شکنی کر نے کی ضرورت ہے، وزیر اعظم اور حکومت کی جانب سے مذاکرات کی کامیابی کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی کی خاطر بعض ایسے اقدامات بھی کیے

جا نا چاہئیں کہ جن سے جذبہ خیر سگالی کا اظہار ہوتا ہو ،اس میں سیاسی و انتقامی نوعیت کے مقدمات کے خاتمے کا اعلان اور معمولی الزامات کے تحت پس دیوار زنداں دھکیلے گئے حزب اختلاف کے کارکنوں کی رہائی بھی شامل ہو سکتے ہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اس آئے روز کے لڑائی جھگڑوں اور انتشار کی سیاست سے عوام تنگ آچکے ہیں ، عوام سکون چاہتے ہیں ، اپنی زند گی مین تبد یلی چاہتے ہیں ،اس کیلئے حکو مت اور اپوزیشن کو سنجیدہ کائوش کر نا ہو گی ، اگر چہ حکومت کے کچھ وزراء کی جانب سے رابطوں کی بحالی اور مذاکراتی عمل کی جانب مثبت پیش رفت کی تصدیق کی جارہی ہے

، تاہم اس مقصد کے لیے حکومت کی جانب سے کسی مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل یا اس کے ارکان کے ناموں کی تصدیق تاحال نہیں کی جارہی ہے، بہتر ہو گا کہ اس کمیٹی کی تشکیل اور اس کے ارکان کے ناموں کا اعلان بلاتاخیرکیا جائے ، اس ضمن میں وزیر اعظم کو احتیاط بھی لازماً کرنا ہو گی کہ منفی سوچ کا حامل اور تصادم کی سیاست پر یقین رکھنے والا کوئی شخص کمیٹی میں شامل نہ کیا جائے، ورنہ یہ بڑی مشکل سے شروع ہونے والا مفاہمت اور مذاکرات کا عمل ابتداء میں ہی دم توڑ جائے گا ۔
پا کستانی عوام ایک بار پھر اہل سیاست سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ اس مذاکراتی عمل سے حالات ساز گار بنائیں گے

، اُن کی زندگی میں کوئی تبد یلی لائیں گے ، تاہم عوام کو خیال رکھنا چاہئے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات اتنا جلد نتیجہ آور نہیں ہونگے، لیکن بات چیت ہی وہ واحد طریقہ ہے کہ جس کے ذریعے آگے بڑھا جاسکتا ہے اور ملک و عوام کو بھی در پیش بحرانوں سے نکال کر استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں