Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

عقل کے فیصلے جب ہوں جذبات سے

جینا بھی عذاب

جینا بھی عذاب

عقل کے فیصلے جب ہوں جذبات سے

جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی

وہ مزاج کا سخت تھا عام لوگوں سے ملنے جلنے سے گریزاں رہتا کئی بار عزیز واقارب اسے سخت سست کہہ جاتے وہ اپنی اس قنوطیت سے کچھ نادم سا ہوجاتا لیکن نہ جانے کیوں لوگوںمیں مل گھل جانا اسے اچھا نہ لگتا اسی بناء پر نامور مسلمان فلسفی ابن طفیل ؒ کو بیشتر لوگ سنکی،خبطی،مغرور اور نہ جانے کیا کیا کہتے رہتے تھے اس کی ایک وجہ تو یہ تھی اس کی باتیں عام لوگوںکی سمجھ میں نہیں آتی تھیں

دوسرا وہ معاشرے سے الگ تھلک رہنے کو ترجیح دیتے تھے خلاف ِ معمول ایک روز وہ بہت خوش تھے اپنی عادت کے برعکس وہ چہک چہک کر آنے جانے والوں سیر حاصل گفتگو کرنے لگے عام لوگ تو کیا ان کے قریبی افراد بھی حیران بلکہ پریشان ہوگئے پھر بھی لوگ اس سے پوچھنے کی جسارت نہ کرسکے ابن طفیل سے اس کے ایک بے تکلف دوست نے اس حیرت انگیز تبدیلی کی وجہ دریافت کی اس نے کہا شہر کے کچھ لوگوںکو میرے مکان پر اکٹھا کرو پھر بتائوں گا
بے تکلف دوست حیرت سے آنکھیں ملنے لگا

اسے یقین ہی نہ آیا اس نے ابن ِ طفیل سے استفسارکیا کہ جو میں نے تمہارے منہ سے سنا وہ واقعی وہی ہے جو تم کہنا چاہتے ہو اس نے مسکراتے ہوئے سرہلادیا بے تکلف دوست نے کہا مجھے یقین نہیں آرہا ؟
’’ کیوں؟۔۔ اس میں اتنی حیرانگی والی کیا بات ہے
میں نے ایک عرصہ بعد تمہیں مسکراتے ہوئے دیکھا دوست نے سچائی کے ساتھ کہا تم مجھے ہمیشہ سنجیدہ ہی نظر آتے رہے الگ تھلک، تنہائی پسند،قنوطی ۔۔۔سچ دوست نے پھر پوچھا
اس نے کہا ہاں۔۔۔ دوست بولا زندگی میں پہلی بار کچھ عمائدین ِ شہر اور محلے دار تمہارے گھر آرہے ہیں ان کے کھانے پینے کاانتظام کر ومیں ابھی آتاہوں۔
شہرمیں جس نے بھی حیرت زدہ رہ گیا کچھ ہی دیر بعد اس کا گھر لوگوں سے بھرگیا ابن ِ طفیلؒ نے مخاطب ہوکر کہا اے لوگو!آخرکارمیں نے وہ راز پا لیا ہے جس سے انسانی معاشرہ خوش و خرم رہ سکتا ہے۔
وہ کیا راز ہے ؟ لوگ پوچھنے لگے
ابن طفیلؒ نے مسکراکرجوابدیا میں یہ فلسفہ جان گیا ہوں کہ کائنات کی ہر چیز دوسروں کے لئے ہے۔ غورکریںدرخت اپنا پھل خود نہیں کھاتے ،دریا اپنا پانی خود نہیں پیتے، گائے ،بھینس بکریاں اپنا دودھ خود نہیں پیتیں یہ بہاریں،یہ برساتیں،یہ نغمے،زمزمے سب ایک دوسرے کے ساتھ مشروط ہیں۔ انسان نہ ہوتو قدرت کے سب کے سب نظارے کس کام کے یہ چہل پہل، رنگینیاں ،زندگی کے میلے زندگی کے ہی دم قدم سے ہے اور زندگی انسانوںکی مرہون ِ منت ہے اس لئے بس وہی زندگی نظام کائنات سے ہم آہنگ ہوسکتی ہے

جو دوسروں کے لئے ہو۔ معاشرے میں صرف ایسی بے غرض سوچ تبدیلی لا سکتی ہے۔اسی سوچ کے سہارے زندگی کے راستے سہل ہو سکتے ہیں یہ جا بجا پھیلی ہوئی رنجشیں،عداوتیں،جھگڑے ان سب کا تدارک اسی طرزعمل سے ممکن ہے۔ بغیر کسی غرض ،کسی توقع کے دوسروں کے لئے شجر سایہ دار بننے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ پھر کسی کا منفی رویہ ہمیں مایوس نہیں کر پاتا۔ مذہب اسلام نے تو قدم قدم پر ایک دوسرے کو فائدہ دینے کی تلقین ہے غریبوں، کم وسائل کی مدد ،مستحقین کو صدقہ، خیرات دینا ایک دوسرے کو تحفے عطیات دینا اور صلہ ٔ رحمی سے کام لے کر ہم اس دنیا کو جنت بنا سکتے ہیں

احساس ،اخوت اور محبت کے جذبات سے ایک بہترین معاشرہ تشکیل دیا جاسکتاہے۔ابن طفیلؒ کہہ رہے تھے اختلاف رائے کااحترام برداشت کی سب سے بہترصورت ہے جس سے مسائل،لڑائی جھگڑوں اور فتنہ وفساد کا خاتمہ ممکن ہے کیونکہ ہم دوسروں کے لئے راستے بنائیں گے تو منزلیں خود ہمارا استقبال کریں گی۔ابن طفیلؒ کی باتیں یقینا سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں لیکن پاکستان میں بسنے والوں کاکیا کیجئے جو یہ بات سمجھتے ہی نہیں حالانکہ یہ بات مشہورہے کہ اختلاف جمہوریت کا حسن ہوتاہے لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ
ایک ہی گھر میں “محب وطن” اسد عمر (PTI) اور “مخالف ” زبیر عمر(PMLN) رہتے ہیں ایک ہی گھر میں “محب وطن” پرویز الہی (Q+PTI) اور “مخالف ” شجاعت حسین ق لیگ(+PMLN) رہتے ہیں۔ ایک ہی گھر میں “محب وطن” گلریز افضل چن (PTI-MPA) اور “مخالف” ندیم افضل چن (PPP) رہتے ہیں۔ ایک ہی گھر میں “محب وطن ” سردار شہاب الدین خان سیہڑ (PTI-MPA) اور ’’مخالف ‘‘سردار بہادر خان سیہڑ (PPP) رہ سکتے ہیں

ایک ہی گھر میں “محب وطن” رؤف حسن فواد ( PTI ) اور” مخالف “فواد حسن فواد رہ سکتے ہیں۔ ایک ہی گھر سے تعلق “محب وطن” گوگی کے سسر چوہدری اقبال گجر فرح خان گوگی اور “مخالف نون لیگ ہو سکتے ہیں اگر ایک فیملی سے “محب وطن ” فواد چوہدری (PTI) اور ’’مخالف ” انکے کزن نون لیگی ہو سکتے ہیں محب وطن “پرویز خٹک ” کا تعلق پی ٹی آئی سے اور انکے بھائی “لیاقت خٹک ” نون سے تعلق رکھتے ہیں
تو ….!! عوام کو بھی عقل کے ناخن لے کر آپس میں تعلق خراب نہیں کرنا چاہیے، ایک دوسرے کے جمہوری حق کو تسلیم کرکے گالم گلوچ سے پرہیز کرنا ہوگا بلکہ ان سیاست دانوں کو کہنا چاہیے کہ پہلے اپنے گھروں کی دیواریں پر ایک دوسرے کو گالیاں لکھو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ملکر ایک دوسرے کو چور چور کی آوازیں لگواؤ اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرو اگر یہ نہیں کر سکتے تو بیوقوف بنانے کی کوشش چھوڑ دو قوم جاگ رہی ہے

اب تمہیں ڈرامہ بازی کا حساب دینا ہوگا قوم کو لڑانے کا چورن بیچنے والو تم سب اندر سے ایک ہو اگر جنگ ہے تو اپنے گھر سے شروع کرو۔۔ حکمران بھی وسیع قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سب مخالفین کیلئے عام معافی کااعلان کریں تو ان کی شان میں اضافہ ہو گا وہ بھی پاکستانی ہیں جس کا جو حق ہے اسے تسلیم کیا جانا ضروری ہے یاد رکھیں نفرت کی آگ سب کو جلاڈالی گی جو ملک و قوم کے لئے انتہائی مہلک ثابت ہوسکتی ہے عقل کے فیصلے جذبات سے کرنا کوئی دانش مندی نہیں۔

Exit mobile version