کیا دین اسلام، لائق عمل نہیں ہے؟
نقاش نائطی
۔ +966562677707
دین اسلام اسٹیج سے یا ممبر جمعہ مساجد سے، بتائے جانے والے اسلاف قرون اولی کے اخلاق حمیدہ والے واقعات،فی زمانہ دین اسلام پر عمل پیرا ہم مسلمانوں کے لئے، کیا ناممکنات اعمال ہوتے جارہے ہیں؟ عموماً یہی کہاجاتا ہے کہ اسلام آج کے جدت پسند ترقی پزیر دور کے لئے، عملی دین نہیں رہا، یہ تو آؤٹ ڈیٹیڈ دین بن چکا ہے ۔ لیکن آج بھی دنیا کے کونے کونے میں، ہزاروں مسلم شیوخ سمیت عالمی سطح نہایت متمیز افراد ہیں جنہوں نے ، دین اسلام کے اعلی اخلاق و اقدار پر عمل پیرا رہتے ہوئے، دین پر عمل آوری کوانتہائی آسان و سہل کر بتایا ہے۔
عالم اسلام کی دینی یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ المنورہ کے استاد حدیث اور مسجد نیوی میں درس حدیث دینے والے شیخ الحدیث المدینہ منورہ کے فرزند المحترم شیخ عبدالرزاق بن محسن البدر، جو خود آن کل استاد حدیث جامعہ مدینہ منورہ ہیں، جن کے فیس بک فین فالونئینگ لاکھوں میں ہے اور انکے ہزاروں شاگرد دنیا کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں اور جب وہ ملیشیا ایک تقریب میں پہنچے تھے تو انکےدرس حدیث میں ایک لاکھ کا مجمع جمع ہوا تھا۔ انکے یہاں مصروف معاش وجئے واڑہ کا ایک شخص بطور ڈرائیور 20 سال نوکری کر ،بڑھاپے کے باعث ویزہ کینسل کر، واپس ھند اپنے گھر لوٹتا ہے،
شیخ محترم ہفتہ دس دن بعد اپنے وفادار نوکر کو فون کر، خیر خبر لیتے رہتے ہیں۔ جب ایک مرتبہ فون کرنے پر، انکے بیٹے کی معرفت اسکے ابو کے بیمار پڑتے ہاسپٹل ایڈمٹ ہونے کی،انہیں خبر ملتی ہے تو، نہ صرف انہوں نے، انکی مالی اعانت کی، بالکہ اسکی حالت خراب ہونے پر،سنت رسولﷺ، مریض کی عیادت کرنے، اپنی مصروفیات و متمئز عالمی مقام کو پس پشت رکھے،اپنےہزاروں ھندی طلبہ کو خبر تک نہ کئے، خاموشی کے ساتھ وجئے واڑہ اپنے بیس سالہ خادم کی مزاج پرسی کے لئے پہنچ گئے تھے۔آج کے دور میں ایسے عمدہ اخلاق و اقدار، عمل کر دکھانا، وہ بھی ایسی بڑی سلیبریٹی شخصیت سے، کیا ممکن ہے؟ ہاں اپنے آپ کو سب کچھ سمجھنے والوں سے بھلے ہی ممکن نہ ہو، لیکن کسر نفسی پر عمل پیرا اگر کوئی چاہے تو سب کچھ ممکن ہے۔
یہی وہ ہم مسلمانوں کے اعلی اخلاق و اقدار کا عملی نمونہ ہے، جس سے نہ صرف، اس یہود و ہنود و نصاری دجالی نفرتی دنیا میں، آج دین اسلام زندہ ہے بالکہ تا قیامت اسی طرح پورے اعلی اخلاق و اقدار کے ساتھ اسلام زندہ و تابندہ رہے گا۔ پیشینگوئی رسول ﷺ مطابق، قرون اولی کے سوریہ کے کسی حصہ میں، جامع اموی بالسوریہ یا بیت المقدس فلسطین کے آس پاس، اصل دین سلف و صالحین پر عمل پیرا، ایک گروہ ایسا پایا جائے گا، جو قیامت تک سلف و صالحین کے دین حقیقی کو زندہ و تابندہ باقی رکھے گا۔
عالم کے ہم شافعی، حنفی، مالکی، حنبلی، مقلد، غیر مقلد، دیوبندی، ندوی،اہل سنہ و الجماعہ بریلوی، اہل طریقت ولی کامل، اہل حدیث سلفی، رفاعی، نقش بندی، شیعی، رافضی مختلف فرقوں گروہوں میں بٹے 2،500 ملین ہم مسلمان،اگر قرون اولی والے صحابہ رضوان اللہ اجمعین والے دین اسلام پر، عمل پیرا فقط اہل سلف کےعملی مسلمان ہوجائیں تو، یقین مانئیے یہود و ہنود و نصاری، بغیر جنگ و جدال خون کا قطرہ تک بہائے،حضرت عمر رضی اللہ کے ہاتھوں پر، بیت المقدس کی چابیاں لا تھمائے جیسا، آج بھی بیت المقدس آزاد کرایا جاسکتا ہے۔وما التوفیق الا باللہ
کیا دین اسلام لائق عمل نہ رہا؟