15

مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں!

مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں!

اتحادی حکو مت عر صہ دراز سے ایک کے بعد ایک بیانیہ کی تلاش میں سر گرداں ہے ،جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے ایک نیا بیانیہ تشکیل پا چکا ہے کہ گولی کیوں چلائی؟ اس سے قبل پی ٹی آئی کے بیانیے کارکنوں اور پی ٹی آئی قیادت میں جس طرح مقبول ٹھہرے‘ ویسے ہی اس بیانیے کو بھی پذیرائی مل رہی ہے،پی ٹی آئی کے نئے بیانیے اور قیادت کے دھمکی آمیز بیانات کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے

کہ ایسے ماحول میں مذاکرات کی بات آگے نہیں بڑھ سکتی ہے ، اس کے باوجود ایک طرف مذاکرات کا اعلان کیا جارہا ہے تو دوسری جانب سول نافر مانی تحریک سے دھمکایا جارہا ہے ،اگر حکومت اور اپوزیشن نے مذاکرات کا ہی راستہ اختیار کرنا ہے تو پھر ایک دوسرے کے خلاف تلخ بیانات سے گریز کرنا ہو گا۔
اس ملک کے سارے ہی مسائل کا حل مذاکرات میں ہے، مگر جب بھی مذاکرات کی بات شروع ہوتی ہے تو حکو مت اور اپوزیشن دو نوں ہی مذاکرات سے دور بھاگنے لگتے ہیں ،کیو نکہ دونوں کے ہی مفادات مذاکرات نہ کرنے سے جڑے ہیں ،اپوزیشن اپنا مزاحمتی بیانیہ چھوڑنے کیلئے تیار ہے نہ ہی حکو مت کوئی ایسا مطالبہ ماننے کیلئے تیار ہے کہ جس سے اقتدار جاتا نظر آئے ،دونوں ہی بند گلی میں آچکے ہیں

اور اس بند گلی سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا ہے ، یہ راستہ بھی مذاکرات سے ہی نکلے گا، اس کیلئے دونوں فر یقین کوآج نہیں تو کل مذاکرات کرنا ہی پڑیں گے۔اس کا ادارک جتنا جلد کر لیا جائے گا ،اتنا ہی جلد سارے الجھے معاملات سلجھ پائیں گے ، ورنہ معاملات مزید بگڑتے ہی چلے جائیں گے ، کیو نکہ سیاسی جماعتوں میں کتنے ہی اختلاف ہوں، ان کا حل مذاکرات سے ہی نکلتا ہے اور مذاکرات سے ہی نکلنا چاہیے، ماضی میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں بھی شدید اختلافات رہے ہیں، مگر ایک وقت آیا کہ وہ مل بیٹھے ،اس طرح تحریک انصاف اور جے یو آئی میں کبھی قربت نہیں رہی ہے

اور ان کا اختلاف بھی انتہائی شدید رہا ہے ،لیکن ایک وقت آیا کہ ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اہم امور پر مشاورت کر نے لگے ، کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ ایک ایسا وقت بھی آئے کہ جب تحریک انصاف اور حکومت اپنے معاملات کو پارلیمان میں بیٹھ کر خوش اسلوبی سے طے کر نے لگے؟ اس سوال کا جواب اثبات میں ہونا چاہیے، لیکن کیا موجودہ حالات میں ایسا ممکن ہو سکتا ہے؟
اس کیلئے سیاسی حالات ساز گار نہیں ہیں ،مگر ساز گار بنائے تو جاسکتے ہیں ،لیکن حالات ساز گار بنائے جارہے ہیں نہ ہی ساز گار بنا نے کیلئے کوئی پیش رفت دکھائی دیے رہی ہے ،اگر ایک طرف سے کوئی بیان آتا ہے تو اس کا جواب آگے بڑھ کر دیا جارہا ہے اور حالات کو مزید خراب کیا جارہا ہے ،اس صورتحال میں مذاکرات کا ڈول کیسے ڈالا جاسکے گا اور کیسے بند گلی سے نکلنے اور آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کیا جاسکے گا ؟

یہ زبانی کلامی مذاکرات کا جاری کھیل تماشہ بند ہو نا چاہئے اور اس پر دونوں ہی جانب سے کوئی سنجیدہ قابل عمل رویہ اختیار کر نا چاہئے ، ایک بار میں سارے ہی تنازعات کا ایک ساتھ حل تلاش کرنا مشکل ہو گا، تاہم ان تنازعات کو مرحلہ وار بھی حل کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجود مذاکرات میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے تو اس کیلئے کسی ثالث کی مدد بھی لی جا سکتی ہے۔اس باراتحادی حکو مت کے آنے پر خیال کیا جارہا تھا کہ صدر زرداری سیاسی اُلجھے معاملات سلجھانے میں کوئی کردار ادا کریں گے ،

حکومت اور اپوزیشن کو ایک میز پر بیٹھائیں گے ، کوئی مفاہمت کا فار مولا آزمائیں گے ،مگر صدر زرداری حکو مت اور اپوزیشن کو ایک میز پر بیٹھا نے اور کوئی مفاہمتی فارمولا آزمانے کے بجائے اپنے ہی بیٹے کو ایوان وزارت عظمیٰ میں لانے پر زیادہ زور دیے رہے ہیں اور مسلم لیگ( ن) قیادت کو بھی باور کرارہے ہیں کہ اب اقتدار میں آنے کی اُن کی باری ہے،اس باریوں کے چکر میں مذاکرات اورقومی مفادات کہیں پیچھے چلے جاتے ہیں اور ذاتی مفادات آگے آجاتے ہیں ، اس لیے ہی مذاکرات ہو رہے ہیں

نہ ہی مذاکرات کا میاب ہو نے کے آثار دکھائی دیے رہے ہیں۔اگر دیکھا جائے تویہ وقت ذاتی مفادات کا نہیں، بلکہ ملک کے مستقبل کو بچانے کا ہے، اگر دونوں فریقین اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور مذاکرات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے مل بیٹھیں، تو پاکستان کیلئے ایک روشن مستقبل کی امید پیدا ہو سکتی ہے، مذاکرات کے سواء کوئی راستہ نہیں ، مذاکرات کا آغاز ہی بحران کے خاتمے کی پہلی سیڑھی ہے،حکومت اور پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی بصیرت اور عوامی توقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نیا باب رقم کریں،بامقصد مذاکرات کا نہ صرف آغاز کر یں ،بلکہ انہیں کا میاب بھی بنائیں، اس صورت میں ہی ہم ایک مضبوط، مستحکم اور خوشحال پاکستان کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں