نفرت کی سیاست
جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی
پاکستان کی پوری تاریخ سیاسی محاذ آرائی سے بھری پڑی ہے مخالفین نے ایک دوسرے کو کبھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیا سیاسی محاذ آرائی کا ایک طویل دور میاںنوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان گذراہے لوگوںکویاد ہوگامیاںنوازشریف وزیر ِ اعلیٰ پنجاب اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر ِ اعظم منتخب ہوئی تو دونوںنے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا خاتون وزیر اعظم لاہور آتیں تو وزیر اعلیٰ ان کے استقبال کے لئے بھی نہ جاتے ان کے مابین سیاسی محاذ آرائی اتنی بڑھی کہ وہ ایک دوسرے کو سیکیورٹی رسک قرار دینے لگے
یہ سلسلہ دو دہائیوںتک محیط رہا اس دوران قوم2پارٹیوں میں تقسیم ہوگئی کبھی نوازشریف وزیر ِ اعظم بنے تو انہوںنے بے نظیر بھٹو کے ساتھ پورا آڈھالگائے رکھا ان کے خلاف نیب میں آمدن سے زیادہ اثاثے،کرپشن،اختیارات کے تجاوز کے درجنوںکیس بنائے آج کے حلیف آصف زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب دے کر ان کی کردار کشی کی گئی
اور جب بے نظیر بھٹو وزیر ِ اعظم بنیں تو ہرسال میاںنوازشریف ضیاء الحق کی برسی کااہتمام کرتے اس کی آڑمیں درحقیقت بینظیربھٹو کے خلاف ایک محاذ گرم کیا جاتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سازشوںکے ذریعے کرپشن کاالزام لگا کر2مرتبہ حکومت گرائی گئی یہی حال بے نظیربھٹونے نوازشریف کے ساتھ کیا اسی الزام میں ان کی حکومت کا خاتمہ بھی کیا گیا مزے کی بات یہ ہے کہ دونوںنے ایک دوسرے کے خلاف درجنوں مقدمات قائم کئے جو چند ماہ پہلے آئینی ترامیم کے ذریعے ختم کرانے کی کوشش کی گئی
اسی طرح سندھ حکومت اور وفاق کے مابین لڑائی بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں،مسلم لیگ ن اور تحریک ِ انصاف کے ادوار میں بھی یہ کشیدگی اپنے عروج پر تھی اب لگتاہے تاریخ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دہرانے کی کوشش کرے گی کیونکہ اب وفاق میں PDMکی حکومت ہے ان کے سیاسی حریف اور ملک کے واحد اپوزیشن رہنماعمران خان جیل میں ہیں خیبر پی کے میں تحریک ِ انصاف کی حکومت ہے PTI رہنمائوںکا کہناہے کہ ان کے لیڈر عمران خان کی کردارکشی کرکے ان کی شخصیت کو مسخ کیا جارہا ہے
ان کے سیاسی مخالفین ہرقیمت پر عمران خان کو پاکستان کی سیاست سے مائنس کرنا چاہتے ہیں اس میں وہ وقتی طور پر کامیاب بھی ہو چکے ہیں کہ فی الوقت وہ اسمبلی سے باہر ہیں عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس، قادر یونیورسٹی ،9مئی اور رینجرز اہلکاروں کی شہادت سمیت کئی مقدمات زیر ِ سماعت ہیں لیکن اس سے بھی انکار محال ہے کہ ان الزامات کے باوجود عمران خان پاکستان کے سب سے مقبول و ہردلعزیز سیاستدان ہیں جن کے حامیوں کو یقین ہے کہ عمران خان کے خلاف من گھڑت الزامات پرعوام کا شعور اور جذبہ ظلمت کے اندھیروں میں بھی امید کی شمع جلائے ہوئے ہے!!
بدترین فسطائیت کے دور میں بھی پاکستان کی غیور عوام نے جس طرح عمران خان کو پذیرائی دی ہے، وہ قابلِ تحسین ہے! جس ملک میں تھوڑے سے لوگ امیر جبکہ باقی غریبوں کا سمندر ہو، اور وسائل پر قابض طبقہ صرف ذاتی مفادات کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں ترتیب دے، وہاں کبھی استحکام نہیں آسکتا جبکہ تحریک ِ انصاف کے مخالفین عمران خان کو پلے بوائے، یہودی ایجنٹ اور اسلامی ٹچ دینے والاڈرامے باز قراردیتے نہیں تھکتے اب وہ بھی موجودہ حکمرانوں کے ناقد بن کر اپوزیشن کا ساتھ دے رہے ہیں
اس تناظرمیں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور PTIکے وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے کہا ہے کہ 24نومبرکو اسلام آباد ڈی چوک میں تحریک ِ انصاف کے پر امن کارکنوں لولیاں برسائی گئیں 12کارکن جاں بحق ہوئے سینکڑوں لاپتہ اور زخمی ہیں بانیPTI نے موجودہ حکومت کے رویہ کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا عندیہ دیاہے لیکن ابھی ہم نے اس کاباقاعدہ اعلان نہیں کیا جس روز سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی موجودہ حکومت کا دھرن تختہ ہو جائے گا ۔
سیاسی مبصرین کا ان حالات پر تجزیہ ہے کہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور PTIکے وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور کی باتیں سیاسی محاذ آرائی کا نتیجہ ہے ہیں ملک پہلے ہی نازک دور سے گذررہاہے لیکن یہ بھی کہاجارہاہے کہ الیکشن کمیشن ، شہبازشریف سرکار اور پیپلزپارٹی، بیوروکریسی اور حالات نے جو کچھ تحریک ِ انصاف کے امیدواروں،رہنمائوں اور بالخصو ص عمران خان کے ساتھ کیا ہے یہ نفرت کی سیاست ہے جو کسی طوربھی ملک وقوم کے مفادمیںنہیں ہے
پاکستان کی وسیع تر مفادمیں محاذ آرائی سے بچناکیلئے دلوںکو وسعت دینے سے ہی حالات بہتر ہوسکتے ہیں کیونکہ معاشرے میں پہلے ہی عدم برداشت سے بہت مسائل پیدا ہورہے ہیں لوگ ذرا ذرا سے بات پر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں اسی لئے ایک دوسرے کا حق تسلیم کئے بغیر پاکستان ترقی کرسکتا ہے نہ معیشت کی حالت بہتر ہوسکتی ہے PDM رہنمائوں کو وسیع قلبی کا مظاہرہ کرناہوگا کیونکہ ملک میں اب ان کی حکومت ہےPTI کے کچھ تحفظات ہیں تو انہیں دور کیا جائے یہی سب کے حق میں بہتر ہے
تحریک ِ انصاف اور حکومت کے مابین مذاکرات انتہائی ضروری ہیں ، کوئی مذاکرات تب تک نیتجہ خیز ثابت نہیں ہوتے جب تک سیاسی قوتیں ٹی او آرز ڈسکس نہ کریں اور پھر وہ ٹی او آرز اسٹیبلشمنٹ سے ڈسکس کریں۔ ایک دوسرے کے لیے کبھی کوئی مثبت بات نہیں کی، میڈیا میں مذاکرات کی بات تواتر سے آرہی ہے لیکن وفاقی وزراء عطا اللہ تاڑڑ ،خواجہ آصف وغیرہ ہے بڑے تند لہجے میں کہتے ہیں مذاکرات نہیں ہو رہے
فریقین ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں مذاکرات میں پہل کرنا حکومت کی ناکامی یا ہار نہیں یہ ملک بہت سی قربانیاں دے کر حاصل کیا گیاہے مسلح افواج آج بھی انتہا پسندی، دہشت گردی اور سماج دشمن عناصر کے خلاف نبرد آزماہے ان قربانیوںکے پیش ِ نظر قومی مفاہمت سے ہی مسائل حل کئے جاسکتے وگرنہ نفرت کی سیاست کہیں ملک کو خانہ جنگی کی طرف نہ دھکیل دے خدانہ کرے۔ آج یہی سوچ سوچ کر ہمارے دل مضطرب ہیں دل کا سکون نفرت کی سیاست کا خاتمہ ہے۔