ماں کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ تو، استاد بچوں کے دوسرے والدین 16

یونانی طرز تعلیم و شفایابی دواخانہ، دارالشفا یا ہمدرد

یونانی طرز تعلیم و شفایابی دواخانہ، دارالشفا یا ہمدرد

نقاش نائطی
۔ +966562677707

محمد قلی قطب نواب حیدرآباد کا 1595 بنایا نہ صرف حیدر آباد کا بالکہ پورے ھندستان کا سب سے پہلا ، طب تعلیم سکھانے کی سہولیات کے ساتھ، مکمل یونانی ہاسپٹل، اپنےتاسیس کے 429 سال بعد، بھارت بھر کے مختلف تونگر مسلم رہنما و تاجر اقوام کی طرف حسرت و یاس سے دیکھتا پایا جارہا ہے۔ آج جبکہ پورے ہندستان میں ایورویدک ادویات دستیاب پائے جاتے پس منظر میں، آج سے سوا چار سو سال قبل، اپنے یونانی میڈیکل کالج کے ساتھ، شفایابی مرکز دارالشفاء اس وقت پورے ہندستان کا پہلا مکمل یونانی ادویات ہاسپٹل تھا۔ بے شک بعد کے دنوں میں دہلی میں یونانی طرزادویات،ہمدرد دواخانہ نے،بیسویں صدی عیسوی میں، خوب ترقی کی تھی لیکن 21وین صدی آتے آتے،

بابا رام دیو کے ایورویدک سنگھی ذہنیت حکومتی سرپرستی مارکیٹنگ کے سامنے، تمام تر یونانی ادویات، دوا خانے کچھ ماند سے پڑنے لگے ہیں۔ جبکہ ان ہزاروں سال قبل والے یونانی طرز ادویات کو، ہزاروں سال قبل والے ایوروید طرز ادویات سے صدئوں سے کوئی خطرہ نہیں رہا ہے۔اور مستقبل میں بھی کوئی خطرہ رہے گابالکہ انسانی صحت کے لئے، اجمالی طور نقصان دہ، ان انگریزی ادویات مشتہر ترقی پزیری، ہزاروں سال قبل والے بیسیوں پرانے طریقہ علاج کو دیمک زد کیا ہوا ہے۔ ان میں دو بدو مقابلہ آرائی کے بجائے،

ہم ہندستانیوں کو، مشترکہ طور پر، ہزاروں سال قبل والے، قدرتی جڑی بوٹی علاج یونانی ایوروید کو مل کر، ترقی کرتے ہوئے، ان مہلک انسانی انگریزی ادویات سے، نسل انسانی کو آمان دلانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ یونانی طب میں نبض شناسی کا جو بہترین وطیرہ پایا جاتا ہے، اس سے انگریزی ادویات ماہرین، دور دور تک لاعلم سے جیسے ہیں۔ سب سے اہم ایوروید ہوں کہ یونانی، چونکہ یہ ادویات قدرتی جڑی بوٹیوں سے براہ راست کشید کر بنائی جاتی ہیں اسلئے انسانی جسم، ان سے آسانی سے ہم آہنگ رہنے کی وجہ سے، اسے جلد ہی قبول کرلیتا ہے اور شفایابی نصیب ہوتے، سقم جڑ سے ختم ہوجاتا ہے

۔ جبکہ انگرئزی مضر صحت ادویات، اپنی تیز بھدف تاثیر سے،مرض کو سکیڑ کر، اندر کی طرف دب جانےمجبورکرتےہوئے، کچھ وقت کے بعد، ایک دوسرے سقم کی صورت، باہر آتے پائے جاتے ہیں۔گویا انگریزی ادویات سے مکمل صحت یابی کے بجائے، وقتی سکون ملا کرتا ہے یا ایک سقم دور ہوتے، اپنے مریضوں کو انیک امراض کا شکار بنا جاتا ہے۔ جبکہ ایورویدک یونانی اور انہی سے ملتی جلتی ہومیوپیتھک ادویات سے، بھلے ہی ذرا تاخیر سے شفایابی ہو، سقم جڑ سے ختم ہوجایا کرتا ہے۔

ایسے میں ایک شخص حکیم عبدالمجید کا 1920 دہلی میں ہمدرد نام سے شروع کیا گیا چھوٹا سا کلینک، اپنی تاسیس کے 44 سال کے اندر ہی 1964 جامعہ ہمدرد یونیورسٹی کی شکل اختیار کرتے ہوئے اور اپنی غیر رسمی فرعین پڑوسی پاکستان و بنگلہ دیش میں تک کھولے، عالم انسانیت کے ایک بہت بڑے حصہ انسانیت کو،مستفید ہونے کے مواقع پیدا کئے ہوئے ہے۔ آج بھارت میں دیوبند لکھنؤ دہلی علیگڑھ ممبئی پونا گلبرگہ حیدر آباد بنگلور بھٹکل میں علیگڑھ طرز پر متعدد تعلیمی ادارے، ابھی حال ہی میں اپنے تاسیس کے سو سال تکمیل تقاریب منعقد کرچکے ہیں یا کرنے والے ہیں

،لیکن اغیار کے متعدد تعلیمی ادارے مشرومنگ طرز ترقی پزیری پاتے پس منظر میں، ہم مسلم امہ سابقہ صدیوں کے مقابلے تعلیمی آگہی ترقی پزیری میں، پیچھے بہت پیچھے، کچھوئے کی چال سے آگے بڑھتی ہائی جارہی ہے۔ کاش کے سو سال پہلے قائم ہوئے جامعہ ہمدرد اور سواچار سو سال قبل قائم ہوئے دارالشفاء حیدرآباد اور انجمن حامی المسلمین تعلیمی ادارے بھٹکل کرناٹک کے طرز پر، بہت سارے مسلم اداروں کو، بہت زیادہ ترقی پزیری اختیار کرتے ہوئے، ہمدردجیسے مختلف یونیورسٹیز کو منظر عام پر لانا چاہئیے تھا۔

اور قدرتی جڑی بوٹی ادویات پر مشتمل یونانی طب اور اسکے نبض شناسی ہنر کو،بھارت کےہر مسلم اکثریتی گاؤں قصبوں میں، مدارس و کالج کھولے،مسلم امہ کےزیادہ تر نوجوان نسل کو،نباض طب یونانی بناتے ہوئے، یونانی جڑی بوٹی ادویات کو، ہر مسلم گھر کا جزء لاینفک بنانا چاہئیے تھا۔ ہمیں امید ہے کچھ ارباب حل وعقل اس سمت فکر کرتے ہوئے، جامعہ ہمدرد اور دار الشفاء والوں کی خدمات حاصل کئے، یونانی طب و نبض شناسی ہنر کو، مسلم علاقوں میں وسیع پیمانے پر سیکھنے سکھانے کے مواقع پیدا کرتے ہوئے، جمیع انسانیت ھند و پاکستان بنگلہ دیش والوں کو ان مضر صحت انگرئزی طریقہ علاج مہلک اثرات سے آمان دلانے کی سعی پیہم شروع کرتے پائےجائینگے۔انشاءاللہ
1595 طب یونانی کا تدرئسی کلیہ کے ساتھ، مکمل شفایابی والا بھارت کا پہلا ہاسپٹل حیدر آباد دارلشفاء حیدر آباد
یونانی طرز تعلیم و تدریب شفایابی ہاسپٹل

جامعہ ہمدرد دہلی

1920 ایک معمولی یونانی دواخانہ سے شروع ہوئی دوائی تعلیمی صنعت 2020 اپنے سو سال تکمیل سے پہلے ہمدر دہلخ تغلق آباد اپنے 90 ایکڑ پر پھیلے یونیورسٹی کاملیکس میں تبدیل ہوچکی ہے

1883 میں اتریردئش پیلی بھید شہر میں جنم پائے حافظ عبدالجید نے 1906 یونانی طب تعلیم حاصل کرنے کے بعد محض 23 سال کی عمر میں پرانی دہلی میں ہمدرد نام سے چھوٹی سی یونانی ادویات کلینک شروع کی تھی۔ 1907 میں شمالی ھند دہلی کی مشہور لؤ زد گرمی سے دہلی والوں کو نجات دلانے کے لئے یونانی ادویات پر مشتمل، “روح افزاء” نام سے ایک مشروب متعارف کروائی تھی جو لؤ زد گرمی کے توڑ کے لئے اتنی کارگر اور مشہور ہوئی کہ چھوٹی سی ہمدر کلنک 1920 تک ایک بہت بڑے ہمدر ہربل ہاؤس میں تبدیل ہوچکی تھی

۔ 1922 انکے والد عبد المجید کے انتقال کے بعد حکیم عبدالحمید اور حکیم عبدالسعید نے اپنے والد گرامی کی شفایابی خدمت خلق کاروبار کو سنبھالا۔ آزادی ھند کے بعد حکیم عبدالسعید نے پاکستان ہجرت کئے وہاں جاکر ہمدر یونانی ادویات کی بنیاد رکھی جو پاکستان میں بھی کافی مشہور ہوتے ہوٹے پاکستانی مصنوعات خلیج عرب کے ممالک کے ساتھ یورپ و امریکہ میں تک روح افزاء مشروب نے جہاں دھوم مچائی وہیں 1971 بنگلہ دیش بننے کے بعد، ہمدر ادویات صنعت بنگلہ دئش میں کھل چکی ہے۔

حکیم عبدالحمید چونکہ ھندستان میں ہی رہ گئے تھے۔ 1948 میں ہمدر یونانی ادویات صنعت کو وقف میں تبدیل کیا گیا تاکہ اس کے منافع سے مسلم قوم میں تعلیمی شفایابی اور تحقیق پر لگایا جاسکے اگلے پچیس سال تک 80فیصد منافع سے مختلف انسٹیٹیوٹ تعمیر کئے جاتے رہے جو بعد میں جامعہ ہمدرد انسٹیٹوٹ کی شکل قوم کے سامنے ہیں۔ 1964 میں ہمدر نیشنل فاونڈئش کے نام سے ایک چیریٹبل فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا

جس کا مقصد دکھی انسانیت میں بلا تفریق مذہب و ملت شفایابی کے ساتھ نئی نسل کو،علم کے زیور سے آراستہ کرنا تھا۔ حکیم عبدالحمید نے دہلی کے تغلق آباد میں 90 ایکڑ زمین خرید کر شاندار ہمدرد نگر کی بنیاد رکھی اور تمام انسٹیٹیوٹ مل کر جامعہ ہمدر یونیورسٹی کی صورت خدمت خلق میں مصروف ہوگئے۔ 1989 میں جامعہ ہمدر کو ڈیمڈ 2 بی یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا بعد میں کئی دفعہ اے گرئڈ کا بھی درجہ مل چکا ہے۔ دوائی سازی میں”این اے آر ایف” طبی ادارے کی طرف سے، آےگریڈایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔

یوں ایک شخض حکیم عبدالمجید کی طرف سے 1920 شروع کی گئی چھوٹی سی ہمدر کلینک، نہ صرف آزاد ھند میں اپنے تاسیس کے سو سال مکمل کرتے کرتے دہلی جیسے دارالخلافہ ھندستان دہلی میں اپنے 90 ایکڑ پر پھیلے ہمدرد یونانی یونیورسٹی کے ماتحت نہ صرف متعدد جہتی ترقی پزیری سے قوم و ملت کی شفایابی و تعلیمی آگہی میں مصروف عمل ہے بلکہ پاکستان و بنگلہ دیش میں بھی،آپنی کمپنی کی غیر رسمی فرعین کھولے، عالمی اعتبار قوم و ملت کی خدمت میں محو و مصروف ہے۔
جامعہ ہمدر دہلی

ہمدر یونانی طبی تعلیمی یونئورسٹی
1920 کا بویا بیچ سو سال کے اندر ہمدر شفایابی تعلیمی یونیورسٹی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ابن بھٹکلی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں