امر یکہ سے کوئی اُمید نہ رکھیں !
پاکستان ایک ذمہ دار جوہری طاقت ہے ،اس نے اپنے ہتھیاروں سے متعلق ہمیشہ ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے،اس کے باوجود پا بندیوں کی زد میں لایا جاتا ہے ، اس بار لا نگ رینج بیلسٹک میزائل پروگرام روکا جارہا ہے ،اس پرپاکستانی دفتر خارجہ کا امریکا کی پابندیوں کو متعصبانہ اور دہرا معیار قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ اس سے خطے میں فوجی عدم توازن بڑھے گا، امریکہ کو پاکستان کے بجائے اسرائیل اور بھارت پر پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت ہے کہ جن کی اسلحے کی دوڑ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہی ہے،
انہیں رو کا جارہا ہے نہ ہی ٹو کا جارہا ہے ،بلکہ اُن کی پشت پناہی کی جارہی ہے ۔اگر دیکھا جائے تو امر یکہ کی جانب سے پابندیوں کے حوالے سے اسلام آباد کا ردعمل اپنے پرانے موقف کے عین مطابق ہے کہ پاکستان کی اسٹرٹیجک صلاحیت اسکی علاقائی خودمختاری کے دفاع کی ضرورت ہے اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے،اگر اس کو ہی بار بار پا بندیوں کی زد میں لایا جائے گا
ااور دفاعی اعتبار سے کمزور بنایا جائے گاتو اس کا مطلب ہے کہ اس کے مخالف ممالک کیلئے آسان چارہ بنایا جارہا ہے ،اس خطے میں جان بوجھ کر عدم توازن لایا جارہا ہے ، اس مخالف ایجنڈے کے خلاف پا کستان پہلے بھی نبر آزمارہا ہے اور آئندہ بھی اپنی جد جہد جاری رکھے گااور پا کستان کے خلاف کسی بیرونی ایجنڈے کو کا میاب نہیں ہو نے دیے گا۔پا کستان کی ہمیشہ سے ہی کوشش رہی ہے کہ ہر ایک سے نہ صرف تعلقات اچھے رکھے ،بلکہ ایک دوسرے کی علاقائی خود مختاری و امن و امان کا بھی احترام کرے ،اس کے بر عکس دیگر ممالک کا روئیہ متعصبا نہ ہی رہا ہے ،پا کستان کی آزادانہ خود مختاری کو قبول کیا جارہا ہے
نہ ہی اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے دیا جارہا ہے ، بلکہ پا بندیوں میں جکڑا جارہا ہے ،امر یکہ کو پا کستان کا ہی میزائل پروگرام کیوں نظر آتا ہے ، اسرائیل اور بھارت کا کیوں نہیں دکھائی دیتا ہے ، اس جا نب ہی متو جہ کرتے ہو ئے ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ کا کہناہے کہ پاکستان کے میزائل پروگرام پرچو بیس کروڑ پا کستانی عوام کا بھروسہ ہے، یہ دہرے معیارات اور امتیازی اقدامات نہ صرف ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کی کوششوں کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے ،بلکہ علاقائی امن کو بھی خطرے میں ڈالیں گے۔
پاکستانی ترجمان نے نجی تجارتی اداروں پر پابندیاں عائد کئے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یاد بھی دلایا ہے کہ ماضی میں تجارتی اداروں کی اسی طرح کی فہرستیں بغیر کسی ثبوت کے محض شکوک و شبہات پر مبنی تھیں، جبکہ دوسرے ممالک کیلئے جدید فوجی ٹیکنالوجی کیلئے لائسنس کی شرط ختم کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں، اس کے باوجود پا کستان کو ہی پا بند یوں کاا نشانہ کیو بنایا جارہا ہے ،
جبکہپاکستان اور امریکہ دو ایسے ممالک ہیں، جو کہ نہ صرف طویل مدت تک فوجی معاہدوں کے ذریعے ایک دوسرے کے حلیف رہے، بلکہ مختلف صورتوں میں ایک دوسرے کے قریب بھی رہے ہیں، دوطرفہ تجارت سے لیکر دہشتگردی کیخلاف جنگ اور افغانستان سے امریکی انخلا کیلئے مذاکرات کی سہولت کاری سمیت متعدد امور میں دونوں ملکوں کا قریبی تعلق واضح ہے۔
اس منظرنامے میں واشنگٹن سے ایسی توقع بے محل نہیں کہ وہ محض شبہات کی بنیاد پر پاکستان کو پابندیوں کا ہدف بنانے سے احتراز کرے اور اس باب میں دہرے معیار کی مثال قائم نہ کرے، مگر دہرے معیار کی ہی مثال قائم کی جارہی ہے
، اس میں سفارتی وخارجی لحاظ سے بھارت کی کا میا بی اورپا کستانی وزارت خارجہ کی ناکا می صاف دکھائی دیے رہی ہے ، وازرت عظمیٰ سے لے کر وازرت خارجہ تک سارے ہی انتقام کی سیاست میں اُ لجھے ہوئے ہیں ،جبکہ بھارت خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کر نے کے میشن پر گامزن ہے اور اپنے مشن میں بڑی حد تک کا میاب دکھائی دیے رہا ہے ، اس میںامر یکہ اور اسرائیل پورا ساتھ دیے رہے
ہیںاور پا کستان پر پا بند یاں لگاکر پیچھے دھکیل رہے ہیں اور بھارت کو آگے لا رہے ہیں۔
ہم نے اپنے ماضی سے کچھ سیکھا ہے نہ ہی کچھ سیکھنا چاہتے ہیں ، اس لیے پرانی غلطیاں ہی دہرائے جارہے ہیں اور آزمائے سے اُمید یں لگا ئے جارہے ہیں ، ہم نے امر یکہ سے اُمید یں لگائے رکھیں اور اب چین سے اُمید یں لگا ئے بیٹھے ہیں ،ہم خود کچھ کر نا چاہتے ہیںنہ ہی کچھ کر رہے ہیں، ہم اپنے بحرانوں سے نکل رہے ہیں
نہ ہی خود انحصاری کی جانب آرہے ہیں ، ہم قر ض پر قر ض ہی لیے جارہے ہیں اور اپنی خود مختاری و آزادی دائو پر لگائے جارہے ہیں ،ہم جب تک اپنے ہاتھ سے کشکول نہیں توڑیں گے ،پا بندیوں کی زد میں ہی رہیں گے، ہمیں اپناکشکول ٹوڑ نا ہو گا اور Absolutely not. کہنا ہو گا ،تب ہی پا بندیوں کی زد سے نکل پائیں گے اور ایک آزاد خود مختار ملک کی حیثیت سے خود کو منوا پائیں گے۔