احساسِ زیاں جاتا رھا
تحریر: راشد عمران چوہان ایڈووکیٹ
حالیہ فوجی عدالتوں کے فیصلے جن میں سولیئنز کو سزائیں سنائی گئی ھیں اس عمل پر پاکستان بار کونسل ، تمام صوبائی بار کونسلز ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، تمام ہائی کورٹس بار ایسوسی ایشنز ، جُملہ ضلعی اور تحصیل بار ایسوسی ایشنز کی زبانیں گُنگ ھیں اور سکوتِ مرگ طاری ھے۔ مجھے نہ تو کسی سیاسی پارٹی سے گلہ ھے اور نہ موجودہ اور سابقہ حکمرانوں سے شکوہ ھے کہ وہ کیسے اسٹیبلشمنٹ کے حامی ھیں یا تھے
اور وہ فوجی عدالتوں کے کیسے رطب اللسان رھے ھیں۔ مجھے تو شکوہ اپنی وکلاء باڈیز سے ھے کہ کس طاقت نے ان سے قوتِ گویائی چھین لی ھے؟ کس نے اور کیسے ان سے قوتِ بیان اور اظہارِ رائے کی آزادی چھین لی ھے ؟ یہ کیوں چپ ھیں ؟ ان کو کونسا سانپ سونگھ گیا ھے ؟ کس مصلحت اور لالچ نے ان کی آبرو گروی رکھ دی ھے ؟ سال ، دو سال ، تین سال بڑھ بھی گئے تو بھی ختم ھو ھی جائیں گے ۔
رھے نام اللہ کا۔ سدا بادشاہی میرے اللہ الجبار المتکبر کی ھے۔ تم حکمران نہیں محض نمائندے ھو ۔غیرت کھاؤ درویشو ورنہ تمھاری داستاں تک بھی نہ ھو گی داستانوں میں۔ ہم وکلاء ھیں۔ گر ہم نہ بولے تو کون بولے گا ؟ پیشۂِ وکالت اور کالے کوٹ کی لاج رکھ لو ۔ ملک و قوم کے لئے بولو ۔ قومی سطح پر تمام بارز اپنے اپنے مقام پر جنرل ہاؤس کے اجلاس بلائیں ۔ آئین کی تعبیر و تشریح سے ان سزاؤں پر سوال اٹھائیں۔ کیوں شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپائے بیٹھے ھو میرے بھائیو ؟
وکلاء اکرام آزاد اور خودمختار ہیں۔ ان کی کونسی تنخواہیں اور پینشنز بند ھو جائیں گی ؟ وکلاء اکرام اپنی خودمختاری اور قانون کی عملداری پر خاموش ھو جائیں تو معاشرہ اجتماعی انحطاط کا شکار ہو جائے گا۔ وکلاء کا یہ فرض ھے کہ وہ قانون ساز اداروں اور سپریم کورٹ کے سامنے وہ سوال اٹھائیں جو آج قوم کے گلے کی پھانس بنے ھوئے ھیں۔
پہلے وکلاء باڈیز آئین کی سربلندی یقینی بناتی رھی ھے مگر آج کی خاموشی وکلاء تنظیموں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ھے۔ کیا وکلاء لیڈرز اپنے فرائض سے کبھی غافل ھو سکتے ھیں ؟ صدا کا قحط پڑے تو وکلاء محاذ ہمیشہ آواز اٹھاتے ھیں۔ آئینی حدود میں احتجاج کرتے ھیں۔ اور آئین کی سر بلندی کو یقینی بناتے ھیں۔ بیشک جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا بہترین جہاد ھے