26

مسائل کا حل قومی اتفاق رائے میں ہے !

مسائل کا حل قومی اتفاق رائے میں ہے !

اس ملک میں سب ہی اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں ،لیکن یہاں کوئی کسی کے ساتھ اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش نہیں کررہا ہے،اس لیے ہی ایک کے بعد ایک مسئلے جنم لیتے ، پھلتے پھولتے اور پھر شدید اختلافات تک جا پہنچتے ہیں،اس جانب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی تو جہ دلائی ہے کہ پاکستان متعدد مسائل سے دوچار ہے اورانہیں حل کرنا کسی ایک کے بس میں نہیںرہا ہے، اگر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا اور بین الاقوامی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے تو تمام فیصلے اتفاقِ رائے سے ہی کرنا ہوں گے۔
یہ بات سب ہی جا نتے ہیں اور مانتے ہیں ، لیکن کوئی اتفاق رائے پیدا کر نے کیلئے تیار ہے نہ مل بیٹھ رہا ہے اور جو مل بیٹھ رہے ہیں ،وہ بھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی مجبوری میں مل بیٹھ رہے ہیں ، اس طر ح مل بیٹھیں گے تو اتفاق رائے کیسے پیدا ہو پائے گا ، جبکہ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے ،اس وقت ایک طرف سکیورٹی چیلنجز میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب اوربیرونی دبائوبڑھتا ہی جارہا ہے،

اس حساس صورتحال میں قومی اتفاقِ رائے کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت پارلیمان کو اعتماد میں لے کر چلے اور ہر مسئلے کا حل پارلیمان کے فورم پر اتفاقِ رائے سے تلاش کیا جائے، لیکن اس کے بر عکس پا رلیمان کے اندر اور باہر اختلاف رائے کم کر نے کے بجائے مزید بڑھایا ہی جارہا ہے۔
اس وقت کسی کو احساس ہی نہیں ہورہا ہے کہ کس کو بہا نہ بنا کر کہاں نشانہ لگا نے کی کو شش کی جارہی ہے ، ایک بار پھر وہی مداخلت ہورہی ہے جو کہ اس پہلے کر کے رجیم تبدیل کروائی گئی ، اس بار بھی ایسا ہی کچھ کیا جارہا ہے ، لیکن اس بار کچھ الگ ہی ایجنڈا ہے ، اس ایجنڈے کا سیاسی حلقو کو مل کر ہی کوئی توڑ نکا لنا ہو گا ،

یہ سیاسی قیادت کی دوراندیشی اور حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ قومی معاملات میں کسی کو دخل اندازی کی اجازت نہ دیں، یہ گھر کا معاملہ گھر ہی میں رہے تو اچھا ہے، اس معاملے میں باہر والوں کی مداخلت‘ دلچسپی اور رائے زنی پاکستان کے مفادات سے مطابقت نہیں رکھتی،یہ پاکستان کی خود مختاری کی بھی خلاف ورزی ہے ،اگر پاکستان کے سیاسی معاملات میں امر یکہ کی جا نب سے بار بار کوئی مداخلت نظر آتی ہے

تو اسکی وجہ بھی ہماری سیاسی نااتفاقی اور مسلسل تنائوکا ماحول ہے کہ جس نے باہر والوں کو اس قسم کی رائے زنی کا موقع فراہم کیا ہے۔
یہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اختلافات کو اس حد تک نہ لے جائیں کہ ان کی عدم توجہی کا فائدہ بیرونی قوتیں اٹھانے لگیں، ہم خود ہی دوسروں کو موقع دیے رہے ہیں اور خود ہی اعتراض بھی کررہے ہیں، ہمیں اپنے اپنے گر یباں میں جھا نکنا ہو گا ، اپنی کوتا ہیوں کا ازالہ کر نا ہو گا اور کوئی ایسا حل نکا لنا ہو گا کہ بغیر لڑائی جھگڑے آگے بڑھا جاسکے ، اس کیلئے قومی اتفاقِ رائے پیدا کر نا ہو گا،

اس کے بغیر اصلاح کی سبھی صورتیں ناقص اور بے نتیجہ ہی رہیں گی، اگر اب بھی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھنے کا عزم کر لیا جائے تو قومی مسائل کے حل کی جانب پیشرفت ہو سکتی ہے ، اہل سیاست اور اہل ریاست مل کر درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں لیکن اس کیلئے ضرورت مفاہمت و یگانگت کی ہے، جو کہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے نہیں ہو پارہی ہے۔
اس میں کوئی ایک نہیں ،سارے ہی قصور وار ہیں ،اس کے باعث ہی ملک میں ایک طرف عدم بر داشت کا زور ہے تو دوسری جانب سیاسی انتقام کا شور ہے ، بار بار وہی پرانی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں ، بار بار اپنی پرانی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا جارہا ہے، ہم کب تک وہی پرانی غلطیاں بار بار دہراتے رہیں گے ؟ ہم کب تک عدم برداشت کا ہی شکار رہیں گے اور کب تک اپنی اپنی انا کے خول میں ہی بند رہیں گے ، ہم جب تک اپنی آنا کے خول سے باہر نہیں نکلیں گے اور ایک قومی اتفاق رائے پیدا نہیں کر یں گے ،ہم کبھی آگے بڑھ پائیں گے نہ ہی ملک میں استحکام لا پائیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں