28

یہ سال بھی آخر بیت گیا

یہ سال بھی آخر بیت گیا

تحریر: ارم ناز (کھنڈہ، صوابی)

وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیرؔ
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے

کہتے ہیں یہ ٹیکنالوجی کا دور تیزرفتار دور ہے لوگوں کی طرزِ زندگی اور وقت جدید ترین ہے اور ترقی یافتہ بھی کہ جہاں ہر چیز اپنے مقررہ وقت سے کئی گنا زیادہ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں جس کا فائدہ وقت اور توانائی کی بچت کی شکل میں ہم سب کے ہی سامنے ہے۔
جہاں یہ ایک اچھی اور مثبت بات ہے وہی پہ سوچا جائے تو زندگی اس تیزرفتاری کے ہاتھوں مار کھا کھا کر کس قدر بےبرکت اور بے توقیر سی ہو گئی ہے، دن، ہفتے، مہینے اور سال اس قدر تیزی سے اختتام کی جانب رواں دواں ہیں

کہ جیسے خزاں رسیدہ درخت پہ لگے زرد پتے سرد موسم کی شدت برداشت کرتے کرتے نیم جاں ہو کر جھڑنے لگتے ہیں، جہاں اس تیز رفتاری نے فوائد پہنچا کر انسان کے کام کاج آسان کر دیے ہیں وہی پہ اس بهاگم بھاگ سے زندگی کا مزہ اور دلکشی ماند سی پڑ گئی ہے، وقت دو کی جگہ چار پیر لگائے بس بھاگے ہی جا رہا ہے اور انسان پھولی ہوئی سانسوں سمیت وقت کی اس تیزرفتاری کا مقابلہ کرتے کرتے کہیں بہت آگے نکل چکا ہے جہاں اسے نہ تو دن کا ہوش باقی رہا ہے اور نہ ہی رات کی کوئی خبر، ہوش تو بس تب ہی آتا ہے جب زندگی تمام ہو جانے اور رخصت لینے کا مقام آ پہنچتا ہے۔

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

اس تیز رفتار دور اور بھاگتی دوڑتی زندگی میں سال کے 364 دنوں میں کوئی آپ کو پوچھے یا نہ پوچھے مگر یہ ایک دن یعنی سال کے آخری مہینے یعنی دسمبر کے آخری دن آپ کو ضرور پوچھا جاتا ہے کہ سال کیسا گزرا؟؟ کیا پایا کیا کھویا؟؟ کوئی آپ سے آپ کے بارے میں پوچھے یا نہ پوچھے مگر اپنے بیتے سال کی روداد قلم بند کر کے آپ کے آگے ضرور پیش کرتے ہیں، جنہیں پڑھ کر آپ کا قلم بھی قرطاس کی تلاش شروع کر لیتا ہے، سب کی طرح آپ کا دل بھی چاہتا ہے کہ کچھ پاکیزہ صفحات پہ سیاہ روشنائی بکھیر کر ان کے کھورے دامن کو داغ دار کیا جائے۔
تو ہر سال کی طرح اس سال بھی سال کے اختتام پہ کچھ سوالات میرے ذہن و دل کے در و دیوار پہ بھی دستک دینے آ کھڑے ہوئے ہیں کہ یہ سال کیسا رہا؟؟؟ کیا پایا ایسا جس کی خوشی اگلے سالوں تلک بھی دل کو مسحور کئے رکھے گی اور ایسا کیا کھویا کہ جس کا دکھ باقی تمام زندگی دل میں چھبن کا احساس جگاتا رہے گا؟ کیا بدلا؟ زندگی؟ وقت؟؟ یا پھر اپنی ذات ہی اس بدلاؤ کا شکار ہوئی؟

کاش اس کے رو بہ رو نہ کریں مجھ کو حشر میں
کتنے مرے سوال ہیں جن کا نہیں جواب

ایسے کئی سوالات منہ چڑھانے آ موجود ہوئے ہیں اور میں ہمیشہ کی طرح اس بار قلم اٹھا کر اور نڈر بن کر بس لکھ ڈالنے کو تیار نہیں ہو پا رہی، پتا ہے کیوں
کیونکہ اس سال سب سے بڑا دکھ تو قلم کے روٹھ جانے کا ہی ہے کہ اس سال مجھ سے اپنا ساتھی اپنا مخلص دوست ناراض رہا اور یوں وہ مجھ پہ بیت جانے والے حالات و واقعیات، میری ذات کی توڑ پھوڑ اور شکست و ریخت سے بےخبر رہا، اس سال میں نے خونِ جگر سے قرطاس کو رنگنے نہ دیا کہ ذات پہ سونامی کا ایسا راج رہا کہ قلم اپنے ہی لفظوں کے ملبے تلے آکر دم توڑ گیا اور قرطاس خود کو قلم کے خون سے رنگنے کے بجائے تیز طوفانی ہواؤں کے جکڑ برداشت کرتے کرتے آخر کار ریزہ ریزہ ہو کر کہیں دور کسی انجانے اور ویران پڑے جزائر پہ پہنچ کر غائب ہو گیا، اور میں اپنی ذات کی بکھری کرچیاں سمیٹنے میں اس قدر گم رہی کہ اپنے مخلص ساتھیوں کے بچھڑ جانے کا ماتم بھی نہ منا سکی، مجھے سال کے 365 دنوں میں احساس ہی نہیں ہوا کہ میں کتنی بڑی نعمت کتنا بڑا سکوں کھو چکی ہوں۔

ہر ذہن کو سودا ہوا ہر آنکھ نے کچھ پڑھ لیا
لیکن سر قرطاس جاں میں نے لکھا کچھ بھی نہیں

احساس رہا تو بس عارضی دوستیوں کے ختم ہو جانے کا، عارضی تعلقات کا کسی بےضرر بات پہ ٹوٹ جانے کا، مطلب پرستی کی آگ میں جلتے کڑتے لوگوں کے روٹھ جانے کا، تکلیف ہوئی تو بس اس بات کی کہ so called relationships کو نبهانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، دل دکھا تو بس اس بات پہ کہ سمجهنے کا دعوی کرنے والے وقت آنے پہ سمجھ نہ سکے، برا محسوس ہوا تو بس یہی کہ آخر “خونی رشتوں میں کشش کیونکر نہ پیدا کی گئی؟”، ملامت ہوئے تو بس اپنے ہی رشتوں کے ہاتھوں ہوئے جو وقت پڑنے پر ساتھ کھڑے تک نہ ہو پائے، خود پہ غصّہ آیا تو بس اس بات پہ کہ آخر کیا فائدہ اپنی ذات کو فراموش کر کے لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرنے کا؟، آخر یہ لوگ ہے کون جن کے دلوں میں رہنے کی خاطر خود کو خوار کرتے آ رہے ہیں ہم؟۔

یہ لوگ فرشتے ہیں خدا ہیں کیا ہیں؟
ان کے معیار پہ کیوں خود کو اتارا جائے؟

سوالات ہے یا جان کنی کا عذاب کہ جسے اس بار جھیل لینا کسی بہت بڑے مارکے سے کم نہیں تھا، ذہن کو تو تھكايا ہی مگر دل و جاں پہ بھی کاری ضرب لگا چھوڑی۔
تو ان سب کے بیت جانے کے بعد اور آج ایک عقل مندانہ و صحت مندانہ فیصلہ کر لینے کے بعد مجھے خود پہ فخر کرنے کا اختیار دیا جائے کہ میں اس اندھیری سُرنگ میں سے اکیلی، تن تنہا بغیر کسی کا ہاتھ تھامے بس اللّه کی ذات پہ بھروسہ کرتے ہوئے اِس پار نکل آئی ہوں۔ ہاں اس پار جہاں روشنی ہے جہاں اب فقط میری ذات ہے اور ذات سے جڑے فقط چند رشتے (وہ رشتے جن کے دم سے میرا وجود ہے) اب اگر کچھ ہے تو بس یہی ہے، اپنی ذات کی بھلائی کی سوچ ہے اور چند مخلص ہاتھ کہ جنہیں تھام کر مجھے اپنی باقی ماندہ زندگی سکوں اور خوشیوں سے بھرپور نظر آرہی ہے، باقی دور دور تک خلا ہے اور اس خلا کو منفی اذہان اور منفی رویے رکھنے والے لوگوں سے بھرنے کا نہ تو اب میرا کوئی ارادہ ہے اور نہ ہی کوئی خواہش۔

عمر بھر حلقہ احباب بڑھایا میں نے____!!
اب یہ خواہش، کہ کوئی جاننے والا نہ ملے___!!

تکمیل کو پہنچ جانے والے اس سال 2024 نے جاتے جاتے احساس دلايا کہ انسان کے پاس اپنی ذات کی پہچان ہونا ضروری ہے، انسان کی کسی اور کی نہیں تو نہ سہی مگر اپنی نظروں میں عزت، قدر و منزلت ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ اس کا موجود ہونا۔ آپ کی عزت سب سے پہلے آپ کو خود کرنی پڑتی ہے تب ہی آپ کی ذات دوسروں کی نظروں میں بھی معتبر ٹھہرتی ہے، آپ کو خود اپنی نظروں میں بلند ہونا پڑتا ہے کہ وہ لوگ کبھی پستی سے نکل نہیں پاتے جنہیں اپنی ذات کی قدر و منزلت کا خود ہی کوئی اندازہ نہیں۔
تو خود کو بلند کریں اور جانے والوں کو اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کی بھلائی کی خاطر جانے دیں اس امید کے ساتھ کہ ان کا آپ کی زندگی سے نکل جانا قدرت کی مصلحت ہے جو شاید نہیں یقیناً آپ کے حق میں بہتر ضرور ثابت ہوگی۔

چھن جانے میں بھی مصلحتِ خدا ہوتی ہے
ہر چیز کا پاس رہنا بہتر نہیں ہوتا

تو جاتے سال کو بغیر دکھی ہوئے خوشیوں بھرا الوداع کہے اس امید کے ساتھ کہ جانے والے چلے گئے ان کے ساتھ ان کے مطلب، ان کے غرض اور ان کا زہریلا پن سب کچھ چلا گیا اب وہ مزید ہمیں دکھی نہیں کر سکتے نہ ہی اب ہم انہیں اس بات کی اجازت دیں گے۔

بے اعتبار لوگ تھے وہ وار کر گئے
لیکن میرے شعور کو بیدار کر گئے

خود کو پختہ یقین دلائیں کہ پیچھے رہ جانے والے پیچھے رہ گئے، قصداً چھوڑ دینے والے بس چھوٹ گئے، اب آگے بڑھنا ہے خود کے لئے، اپنی عزت و وقار کے لئے اور اپنی ذات کی سربلندی کے لئے کہ خود کی سربلندی فقط ذات کے بلند لوگوں کا ہی مقصدِ حیات ہوتی ہے اور یقین جانے ایسے لوگوں کے پیچھے ایک دن یہ دنیا ضرور آتی ہے، بس ایک بار خود کو ہرمنفی جزبے، ہر toxic relationship سے آزاد کرنا ہوتا ہے اور مقصدِ حیات کو اوّل ترجیح جان کر بس بڑھتے چلے جانا ہوتا ہے پھر منزل نظروں کے سامنے خود کو عياں کرنے میں دیر نہیں لگاتی، اور ایک بار آپ منزل پا جائیں پھر یہ چھوڑ دینے والے اور قصداً چھوٹ جانے والے لوگ نظروں کے سامنے کھڑے بھی رہیں تو نظر نہیں آتے پھر وہ لاکھ ترلے کر لیں ہزار منتیں کر لیں آگے بڑھ جانے والوں کو ان کی رتی بھر پرواہ نہیں ہوتی۔

تم نے چھوڑا تھا عادتاً مجھ کو___!!
اب مشقت کرو كماؤ مجھے___!!

تو آئیں خوش آمدید کہے آنے والے نئے سال سالِ نو سال 2025 کو اس امید کے ساتھ کے یہ نیا سال ہمارا ہے فقط ہمارا اور ہم اس سال کو اپنی ذات اور اپنی ذات کی بھلائی کے نام کرتے ہیں پھر یقیناً یہ نیا سال بھی خود کو ہمارے نام کرتے ہوئے فخر ضرور محسوس کرے گا۔
(ان شاء اللہ)

اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور اس نئے سال کو ہمارے لئے، ہماری فیملیز کے لئے اور ہمارے پیارے ملک پاکستان کے لئے خوشیوں، خوش خبریوں، كاميابیوں و کامرانیوں اور ترقی کا مبارک سال ثابت کرے۔
آمین الٰہی آمین

نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے
خدا کرے یہ نیا سال سب کو راس آئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں