دبائو سے نکلنے کے مذاکرات !
ملک میں سیاسی ہوائیں بدل رہی ہیں ، ایک طرف مذاکرات کاڈول ڈالا جارہا ہے تو دوسری جانب ڈیل اور ڈھیل کا پر چار کیا جارہا ہے ، اس پر بانی پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا ہے کہ اب ڈیل کرنے کی کیا ضرورت ہے ، جبکہ ڈیڑھ سال سے حکو مت کی جانب سے بنائے گئے متعدد مقدمات لڑ رہا ہوں‘ڈیڑھ سال سے جیل بھی کاٹ ر ہا ہوں ، میرے مقد مات چھوٹے ثابت ہو رہے ہیں تو پھر ڈیل اور ڈھیل کی ضرورت نہیں ہے، مقتدرہ یا کسی ملک کے کہنے پر ڈیل کروں گا نہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹوں گا نہ ہی ملک چھوڑ کر کہیں جائوں گا ،بلکہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے ہی ساری مشکلات کا سامنا کروں گا۔
یہ بات حکومت بھی ماننے لگی ہے کہ بانی تحریک انصاف سے کو ئی ڈیل کر نا اور ڈھیل دینا کوئی آسان کا م نہیں ہے ، اس لیے ہی مذاکرات سے اجتناب کیا جاتا رہا ہے اور ڈیل ڈھیل سے بھی گریز کیا جاتا رہا ہے ،لیکن اب حالات بدلنے لگے ہیں توبا نی پی ٹی آئی کو ہی مختلف آفر یںدی جانے لگی ہیں، کیو نکہ ایک طرف اندرونی دبائو ہے تو دوسری جانب بیرونی دبائو بھی بڑھنے لگا ہے ، اس دبائو کو حکومت برداشت کر سکتی ہے
نہ ہی اس دبائو کے ساتھ طاقتور حلقے چل سکتے ہیں ،اس لیے مذاکرات کی بیل منڈھیر پر چڑھائی جارہی ہے ،لیکن اس کے ساتھ خد شات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ حکومت خود مانگے تانگے کی ہے، اس کے پاس اپنا کچھ بھی نہیںتو مذاکرات کی ٹیبل پرپی ٹی آئی کو کچھ دیے پائے گی نہ ہی مذاکرات کا میاب بنا پائے گی ۔
اگر دیکھا جائے تو حکو مت کبھی مذاکرات کی خوہاں نہیں رہی ہے ، کیو نکہ وہ جا نتی ہے کہ اس کی کا میابی کے نتیجے میں، انہیںجانا پڑے گا ، اس لیے آنے بہانے اپوزیشن کو ہی مود الزام ٹہراتے ہوئے مذاکرات سے بھاگتے رہے ہیں ،لیکن اب بدلتے حالات کے ساتھ مذاکرات ہی مجبوری بنے لگے ہیں ،حکو مت کو لا نے والوں کے بھی اشارے ملنے لگے ہیں، کیو نکہ ، صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی خان صاحب کی رہائی کا مسلسل مطالبہ کررہے ہیں، وہ ان کے خلاف مقدمات کو بھی ایسے ہی قرار دیتے ہیں،
جیسا کہ صدر ٹرمپ کے خلاف بنائے گئے تھے،اس کے ساتھ فوجی عدالتوں سے عام شہریوں کو سزائوں پر بھی امریکا، برطانیہ یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے،جبکہ آٹھ فروری کے الیکشن پر بھی عالمی ردعمل موجود ہے اور اس کی صدائے بازگشت بھی تسلسل سے سنائی دیتی رہتی ہے۔
اس صورت حال میںحکو مت اور مقتدرہ، اس پوزیشن میں نہیں ر ہے ہیں کہ اس سارے دبائو کو بیک وقت برداشت کرسکیں، اس سارے دبائو سے نکلنے کا راستہ ،مذاکرات ہی ہوسکتے ہیں، اس لیے ہی مذاکرات ہو رہے ہیں اور ان مذاکرات کے دوران ہی مختلف آفریں سامنے آرہی ہیں ، اگر بانی پی ٹی آئی عمران خان اور دیگر گرفتار شدگان کو رہا کرنا اور فوجی سزائوں کو لپیٹنا اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنانا ناگزیر ہوگیا تو ان مذاکرات کا ہی سہارا لیا جاسکتا ہے، اس کے ذریعے ہی ایک دوسرے کیلئے کوئی راستہ نکالا جا سکتا ہے ، اس راستے پر ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے ، اس کو جتنا جلد مان لیا جائے گا اور اس پر عمل کیا جائے گا تو ہی اندرونی وبیرونی ہر دبائو سے با ہر نکلا جاسکے گا،بصورت دیگر جہاں مذاکرات ناکام ہوں گے، وہیں حالات بھی بد تر سے بد تر ہوتے چلے جائیں گے ۔
اس وقت ملک کسی ایسے حالات کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے ، اس لیے جہاں ہر ممکن حالات کو ساز گار بنا نا ہے ،وہیں مذاکرات کو بھی کا میاب بنا ہے ،اس کیلئے حکو مت کو سنجیدگی دیکھانا ہے اور اپوزیشن کو بھی لچک دکھاناہے ،اگرحکو مت خود کو بچانے کی کوشش میں رہے گی اور اپوزیشن اپنے مطالبات منوانے میں ہی لگے رہے گی تو الجھے معا ملات کبھی سلجھ پا ئیں گے نہ ہی مذاکرات آگے بڑھ پائیں گے ، اگر مذاکرات کو کا میاب اور حالات کو ساز گار بنا نا ہے توحکومت، پی ٹی آئی اور طاقتور حلقوں کو ایک بار ماننا ہی پڑے گا کہ اُن سے غلطیاں ہوئی ہیں اور اِن غلطیوں کا ازالہ کرنا ہے، اگر ہر ایک اپنی کوتاہیوں کو نہیں ما نے گا اور اپنی کو تاہیوں کا ازالہ نہیںکرے گاتو کیسے آگے بڑھ پا ئے گا ،حکو مت ،اپوزیشن کے ساتھ مقتدرہ بھی دبائومیںہے ،یہ مذاکرات کسی دبائو میں ہی سہی ، اگرملک کو درپیش بحران سے نکلنا ہے تو ان مذاکرات کو کا میاب بنا نا ہی ہوں گے ، اس کے علاوہ کوئی چار ہ نہیں ہے۔